خاموش لوگ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں؟

جیل کے ایک کمرے میں دو قیدی بیٹھے تھے۔
ایک مسلسل بول رہا تھا:
“میں نے یہ نہیں کیا، وہ غلط ہے، قانون ناکام ہے، نظام گندا ہے…”
دوسرا مکمل خاموش تھا۔

پولیس نے پہلا قیدی چھوڑ دیا۔
دوسرے کو سزا ہو گئی۔

کیوں؟
کیونکہ دوسرا “زیادہ خطرناک لگ رہا تھا۔”

ہم خاموش لوگوں سے اکثر خوف محسوس کرتے ہیں۔
کیونکہ ہم انہیں پڑھ نہیں سکتے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اندر سے کچھ اور ہیں، باہر سے کچھ اور۔
لیکن کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟
یا ہم صرف اپنی بے چینی کو ان پر ڈال دیتے ہیں؟

کیا جو لوگ کم بولتے ہیں، وہ زیادہ سوچتے ہیں؟
یا وہ زیادہ منصوبہ ساز ہوتے ہیں؟
کیا خاموشی کسی ذہنی برتری کی علامت ہے؟
یا یہ محض خاموشی ہے؟

ایک تجربہ 1970 کی دہائی میں کیا گیا —
پروفیسر David Rosenhan نے اپنے 8 ساتھیوں کو مختلف ذہنی اسپتالوں میں “خاموش پاگل” کے طور پر داخل کروایا۔
انہوں نے کوئی خاص حرکت نہیں کی — صرف کم بات کی، اور عمومی طور پر “غیر جذباتی” رویہ رکھا۔

نتیجہ؟
ہر ایک کو “schizophrenia” کا مریض قرار دے دیا گیا۔

جبکہ وہ سب مکمل طور پر نارمل تھے۔

ہمارا دماغ دوسروں کے جذبات کے بارے میں جلدی فیصلے کرتا ہے، اکثر غلط۔

خاموش لوگ ہمیں غیر واضح لگتے ہیں —
ہم انہیں “گہرا” یا “چالاک” سمجھ لیتے ہیں،
جبکہ وہ اکثر صرف کم توانائی والے انٹروورٹ ہوتے ہیں۔

اب آئیے دوسری طرف:
تاریخ کے کچھ بڑے مجرم — انتہائی بولنے والے، دلکش، اور ملنسار لوگ تھے۔

ان کے شکار اکثر وہ لوگ بنے جو “ان پر بھروسا کر بیٹھے” کیونکہ وہ کھلے دل سے بات کرتے تھے۔

تو کیا ہم بولنے والے کو محفوظ اور خاموش کو مشکوک سمجھنے کی انسانی عادت کے غلام ہیں؟

شاید۔

اور یہی نقطہ ہمیں کئی بار دھوکہ بھی دیتا ہے —
رشتوں میں، عدالت میں، ووٹ دیتے وقت، اور زندگی کے بڑے فیصلوں میں۔
💭 نتیجہ:

خاموشی کوئی ضمانت نہیں، لیکن نہ ہی خطرہ ہے۔
خاموش دماغ اکثر صرف وہ ہوتے ہیں جو سننے کو اہمیت دیتے ہیں —

ہم ہی اپنی بے چینی سے ان کے چہرے پر دھوکہ لکھ دیتے ہیں۔