قسط نمبر چار: ہوا کا آخری سانس

ہم کئی گھنٹے تک چلتے رہے تھے۔ سرنگ اب بہت تنگ ہو چکی تھی، اور چھت اتنی نیچی کہ ہمیں جھک کر چلنا پڑ رہا تھا۔ پیروں تلے کی مٹی نرم ہوتی جا رہی تھی، اور فضا میں آکسیجن کی مقدار واضح طور پر کم ہو چکی تھی۔

میری سانس پھول رہی تھی۔ پروفیسر کے چہرے پر پسینہ، مگر چال میں اب بھی ایک خوداعتمادی تھی۔ ہنس خاموش تھا — شاید خوفزدہ یا تھکا ہوا، یا دونوں۔

“ہمیں رکنا ہوگا،” میں نے ہانپتے ہوئے کہا۔ “یہ فضا… ٹھیک نہیں۔”

پروفیسر نے کچھ دیر سوچا، پھر رک گئے۔ انہوں نے اپنی جیب سے چھوٹا سا بارومیٹر نکالا اور دباؤ کی پیمائش کی۔

“ہم بہت نیچے آ چکے ہیں۔ ہوا کا دباؤ کم ہوتا جا رہا ہے، مگر یہ خطرناک حد تک نہیں پہنچا… ابھی نہیں۔” وہ بولے، جیسے خود کو بھی تسلی دے رہے ہوں۔

ہم نے سرنگ کے کنارے بیٹھ کر پانی پیا۔ خاموشی اتنی شدید تھی کہ پانی کی ہر بوند کی آواز گونجتی محسوس ہو رہی تھی۔

پھر کچھ دیر بعد، ایک مدھم سا شور سنائی دیا۔

“سنی؟” میں نے پوچھا۔

تینوں چونک گئے۔ وہ آواز مسلسل آ رہی تھی — جیسے دور کہیں پانی بہہ رہا ہو، یا شاید کوئی بھاپ کا چشمہ کھول رہا ہو۔

ہم نے خاموشی سے کان لگائے۔

پروفیسر بولے، “یہ جیو تھرمل سرگرمی ہو سکتی ہے۔ زمین کے نیچے گرم پانی کی نالیاں اکثر گیس خارج کرتی ہیں۔”

ہم نے آہستہ آہستہ اس آواز کی سمت جانا شروع کیا۔ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے گئے، فضا میں ایک خفیف سی بُو شامل ہوتی گئی — سلفر کی۔ وہی مخصوص بو جو آتش فشانی چٹانوں یا گرم پانی کے چشموں سے آتی ہے۔

پھر ایک جگہ پہنچ کر ہمیں سرنگ کا دہانہ کچھ چوڑا نظر آیا۔ وہاں ایک دراڑ سی تھی، جس سے گرم ہوا نکل رہی تھی۔

پروفیسر بولے، “یہ جگہ خطرناک ہے۔ یہاں گیس جمع ہو سکتی ہے۔ ہمیں ماسک پہننے چاہییں اور وقت محدود رکھنا ہوگا۔”

ہم نے اپنے چہروں پر کپڑا باندھا اور تیز قدموں سے اس مقام کو عبور کیا۔


(فلیش بیک)
ہم نے آئس لینڈ کے اس آتش فشاں کو کئی ہفتے تحقیق کے بعد منتخب کیا تھا۔ پروفیسر کا ماننا تھا کہ زمین کے تہہ تک پہنچنے کے لیے یہ واحد محفوظ راستہ ہو سکتا ہے — کیونکہ یہ آتش فشاں ہزاروں سال سے غیر فعال تھا۔

لیکن زمین ہمیشہ پرسکون نہیں رہتی — اور ہم جانتے تھے کہ نیچے جتنا جائیں گے، قدرت کا مزاج اتنا ہی غیر یقینی ہوگا۔


ہم اس جگہ سے گزر تو گئے، مگر اب ہمارے پاس آکسیجن کم تھی، تھکن زیادہ، اور اندھیرا گہرا تر۔

میں نے دل میں سوچا:
“ہم نے جو آغاز کیا، وہ شاید واپسی کا راستہ بھولنے کے بعد ہی مکمل ہو سکتا ہے۔”