قسط 11: حتمی چڑھائی، اور برف میں چھپی تحریر

پہاڑ اب خاموش نہیں تھا۔
وہ بول رہا تھا — ہواؤں کی زبان میں،
اور سرمد کی روح سن رہی تھی۔

کیمپ ۳، رات
۶۸۰۰ میٹر کی بلندی
ہوا باریک
سانس بوجھل
مگر آنکھوں میں روشنی تھی۔
🔹 فیصلہ کن صبح

رات جیسے ہی ختم ہوئی،
تینوں نے چڑھائی کے آخری مرحلے کی تیاری شروع کر دی۔

مارٹن:
“ہمارے پاس صرف بارہ گھنٹے ہیں — یا تو چوٹی، یا واپسی۔”

رچرڈ نے آکسیجن سلنڈر کی نالی چیک کی،
جبکہ سرمد نے والد کی ڈائری کا آخری صفحہ پڑھا —
جسے وہ کئی سالوں سے اپنے دل کے قریب رکھے ہوئے تھا۔

“اگر میں واپس نہ آیا، تو راکا پوشی کو سچ سونپ آیا ہوں۔”
– اس کے والد کے آخری الفاظ
🔹 آخری چڑھائی — قدم بہ قدم

صبح ۵ بجے تینوں نکلے۔
سورج کہیں نہیں تھا،
صرف برف کی سفید چادر، نیلا آسمان،
اور تیز ہوتی جاتی ہوا۔

سرمد آگے، مارٹن درمیان میں، رچرڈ پیچھے۔

چڑھائی برفانی دیوار سے نکل کر اب چٹانوں اور برف کے امتزاج میں بدل گئی تھی۔
رسی کے ایک ایک گرہ، crampons کے ایک ایک دانت، اور ice axe کے ہر ضرب میں جان تھی۔

دوپہر تک وہ ۷۴۰۰ میٹر پر پہنچ چکے تھے۔
اب صرف چند سو میٹر کی بلندی باقی تھی —
لیکن وہی سب سے خطرناک تھی۔
🔹 برف میں چھپا راز

راستے میں ایک پرانی سی دھندلی جیکٹ برف سے جھانکتی نظر آئی۔
سرمد نے کھدائی کی —
اندر ایک پرانا خیمہ اور فوٹو فلم کا رول ملا۔

خیمے کے اندر کسی کی تحریر:

“ہم نے چوٹی دیکھ لی، مگر ہم پر برف گرنے کا خطرہ ہے۔
اگر کوئی یہ پڑھے، تو بتانا — ہم ڈرے نہیں تھے، بس پہاڑ خاموش ہو گیا۔”

سرمد کا دل جیسے رک گیا۔

یہ اس کے والد کی تحریر تھی۔

رچرڈ اور مارٹن نے بھی پڑھا —
اور خاموش کھڑے رہے۔
🔹 چوٹی — ۷۷۸۸ میٹر

آخری گھنٹے میں موسم شدید خراب ہونے لگا۔
رچرڈ کے ہاتھ سن ہونے لگے۔
مارٹن نے واپسی کا اشارہ دیا۔

مگر سرمد نے بس آسمان کی طرف دیکھا۔

پھر اُس نے کہا:

“میں اکیلا جاؤں گا — یہ سفر مجھے مکمل کرنا ہے۔”

رچرڈ نے رسی کھولی، اور سرمد آگے بڑھ گیا۔

ہر قدم، ایک کہانی
ہر سانس، ایک دعا
ہر لمحہ، ایک صدی

پھر اچانک —
اوپر ایک پتھر کا چھوٹا سا ٹیلا،
اور برف کی ڈھلوان کا اختتام۔

راکا پوشی کی چوٹی۔

سرمد گھٹنوں کے بل گرا۔

اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب تھا

ہوا چل رہی تھی،
پہاڑ اب خاموش نہیں تھا —