پہاڑی راستوں پر چھاپہ مار ٹیم سلیم کی دی گئی معلومات کے مطابق آگے بڑھ رہی تھی۔ چاروں طرف خاموشی تھی، صرف جوتوں کی چاپ، ریڈیو کی سرسراہٹ، اور ہواؤں کی سرگوشی۔
انسپکٹر بشیر نے ہاتھ کا اشارہ کیا، اور ٹیم ایک چھوٹے سے کچے مکان کے گرد پوزیشن سنبھال گئی۔
اندر روشنی مدھم تھی، دو افراد فرش پر بیٹھے کوئی نقشہ پھیلائے بات کر رہے تھے۔
“بارڈر تک پہنچتے ہی سب کچھ سیٹ ہو جائے گا، ہمیں پیچھے کچھ نہیں چھوڑنا۔”
“سلیم… وہ لڑکا بہت ہوشیار نکلا۔ اگر وہ زندہ بچ گیا تو ہم پھنس جائیں گے۔”
اچانک دروازہ دھڑام سے کھلا،
“پولیس! حرکت نہ کرو!”
گھبراہٹ، شور، اور دوڑ۔
ایک ڈاکو نے کھڑکی سے چھلانگ لگانے کی کوشش کی، مگر پیچھے سے سپاہی نے قابو پا لیا۔ دوسرا دروازے سے نکلتے ہی زمین پر گرایا گیا۔
سلیم جو قریب ہی موجود تھا، دل تھامے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
انسپکٹر بشیر نے آگے بڑھ کر ملزمان کو ہتھکڑیاں لگوائیں۔
“سلیم بیٹا، یہ سب تمہارے حوصلے اور ایمانداری کا نتیجہ ہے۔ تم نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔”
سلیم خاموش کھڑا تھا، جیسے وقت تھم گیا ہو۔
اب وہ لڑکا جو صرف کچھ پیسے نکلوانے گیا تھا، ایک بڑے مجرمانہ نیٹ ورک کو بے نقاب کر چکا تھا۔
پولیس گاڑیاں شہر واپس روانہ ہوئیں۔ سلیم اپنے محلے واپس آیا تو محلے کے بزرگوں نے اسے گلے لگایا، بچے تالیاں بجا رہے تھے، اور مسجد کے امام صاحب نے دعائیہ کلمات کہے:
“یہ ہے نوجوانی کی اصل طاقت — حق، سچ، اور قربانی۔”
سلیم نے نظر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا۔
ایک ہلکی مسکراہٹ لبوں پر آئی، اور دل ہی دل میں کہا:
“یا اللہ، تیرا شکر ہے، تُو ہی حفاظت کرتا ہے، تُو ہی رہنمائی دیتا ہے۔”