Abdul Jabbar

قسط نمبر 10: گڑھے کی خاموشی

ہم تینوں گڑھے کے کنارے خاموش کھڑے تھے۔ نیچے اندھیرا تھا۔ ایسا اندھیرا جس میں مشعل بھی ہار مان لے۔ ہم نے ایک چٹان اٹھا کر نیچے پھینکی — دیر تک کچھ سنائی نہیں دیا۔ پروفیسر نے گڑھے کے گرد چٹان کا معائنہ کیا۔ کچھ جگہوں پر کٹاؤ بہت نرم تھا، جیسے زمین نے کسی […]

قسط نمبر 10: گڑھے کی خاموشی Read More »

قسط نمبر 11: گوتیے کی آخری تحریر

زندہ ہے۔ اور وہ ہمیشہ ہر قدم کو یاد رکھتی ہے۔” ہنس نے چونک کر کہا، “یہ کیسا استعارہ ہے؟ کیا وہ صرف زمین کی پرتوں کی بات کر رہا ہے… یا کچھ اور؟” میں نے آہستہ سے کہا، “شاید وہ صرف اپنا خوف بیان کر رہا ہے — کوئی بھی انسان، جب اتنی گہرائی

قسط نمبر 11: گوتیے کی آخری تحریر Read More »

قسط نمبر 12: نیچے ایک اور دنیا

ہم نے رسی مضبوطی سے جمی چٹان سے باندھی۔ پروفیسر نے سب سے پہلے نیچے جھانک کر گہرائی کا اندازہ لگانے کی کوشش کی، لیکن روشنی آگے جا کر جذب ہو جاتی تھی۔ “پچاس سے ساٹھ میٹر لگتے ہیں،” وہ بولے۔ “نرمی سے اترنا ہوگا، یہ دیوار کہیں کہیں گیلی بھی ہے۔” میں نے آخری

قسط نمبر 12: نیچے ایک اور دنیا Read More »

قسط نمبر 13: زمین کی دھڑکن

وہ آواز مستقل آ رہی تھی — ایک نرم سی گونج، جیسے دور کہیں گہرائی میں کوئی دل دھڑک رہا ہو۔ یہ کوئی جانور نہیں، نہ ہی ہوا کی سادگی۔ یہ… کچھ اور تھا۔ پروفیسر نے آلہ نکالا — ایک سادہ ساؤنڈ ڈیٹیکٹر۔ انہوں نے اسے زمین سے لگایا۔ کچھ دیر بعد اس کی سوئی

قسط نمبر 13: زمین کی دھڑکن Read More »

قسط نمبر 14: ان دیکھا اشارہ

اس زیرِ زمین چیمبر میں وقت کا احساس ختم ہو چکا تھا۔ گھڑی صرف نمبر دکھا رہی تھی، دن اور رات کا کوئی فرق باقی نہیں رہا تھا۔ ہم نے خیمہ وہیں لگایا، اور کچھ وقت اس مقام کا مشاہدہ کرنے میں گزارا۔ پروفیسر نے آلات ترتیب دیے: ہر آلہ ایک ہی بات کہہ رہا

قسط نمبر 14: ان دیکھا اشارہ Read More »

قسط نمبر 15: پتھروں میں بند وقت

ہم نے مشعلیں سنبھالیں، آکسیجن ماسک پہنے، اور احتیاط سے سرنگ میں داخل ہو گئے۔ یہ راستہ اتنا تنگ تھا کہ ہمیں ایک وقت میں صرف ایک شخص ہی گزر سکتا تھا — پہلے پروفیسر، پھر میں، اور آخر میں ہنس۔ چند میٹر کے بعد سرنگ قدرے پھیل گئی، مگر چھت اتنی نیچی تھی کہ

قسط نمبر 15: پتھروں میں بند وقت Read More »

قسط نمبر 16: گوتیے کی گواہی

ہم نے جرنل کی اگلی ورق گردانی شروع کی۔ کاغذوں پر تحریر اب بھی صاف تھی — شاید زمین کی خاص نمی، درجہ حرارت، اور بند فضا نے اسے بچا لیا تھا۔ پروفیسر نے پڑھنا شروع کیا: “میں نے سفر کا آغاز سچ کی تلاش میں کیا تھا — مگر اب میں جان چکا ہوں

قسط نمبر 16: گوتیے کی گواہی Read More »

قسط نمبر 17: دروازے کے پیچھے کچھ نہیں… یا سب کچھ؟

ہم نے چٹان پر موجود نشان کے پیچھے دیوار کو پرکھا۔ پروفیسر نے ہتھوڑے سے آہستہ آہستہ دستک دی — کہیں کہیں وہ کھوکھلی سی لگی۔ یہ قدرتی تہہ نہیں تھی —یہ شاید کسی وقت دباؤ یا حرارت سے الگ ہو چکی پرت تھی، جو اندر کسی غار یا خالی جگہ کو چھپا رہی تھی۔

قسط نمبر 17: دروازے کے پیچھے کچھ نہیں… یا سب کچھ؟ Read More »

قسط نمبر 18: واپسی کا وہم

ہم نے فیصلہ تو کر لیا تھا کہ واپس جانا ہے…مگر فیصلہ کرنا اور راستہ پا لینا، یہ دو مختلف باتیں ہیں۔ جیسے ہی ہم نے سامان باندھ کر پہلی سرنگ کی طرف رخ کیا، تو ہمیں ایک عجیب احساس ہوا:راستے کی ہمواری، ترتیب، ہوا کی سمت — کچھ بھی ویسا نہیں لگ رہا تھا

قسط نمبر 18: واپسی کا وہم Read More »

قسط نمبر 19: سطح کی دہلیز

وہ سرنگ، جس کے آخری سرے سے نیلاہٹ جھانک رہی تھی، پہلے تو خوش آئند لگی — لیکن جیسے جیسے ہم آگے بڑھے، پتہ چلا کہ یہ چٹانی چڑھائی ہے… تقریباً عمودی۔ ہمیں ہاتھوں اور پیروں کے سہارے پتھریلی دیوار چڑھنا پڑی۔ رسیاں کم تھیں، کیلیں محدود، اور جسم کمزور۔ ہنس نے پہلا قدم رکھا

قسط نمبر 19: سطح کی دہلیز Read More »