پطرس ابھی تک کانٹوں بھری جھاڑی کے نیچے چھپا ہوا تھا۔
وہ بہت تھکا ہوا تھا،
اس کی سانس اکھڑی ہوئی تھی،
اور بدن پر جگہ جگہ خراشیں تھیں۔
مگر اُس کے دل میں ایک ہی بات چل رہی تھی:
“مجھے گھر جانا ہے… ماں انتظار کر رہی ہو گی۔”
🌤 جھاڑی سے نکلنا
کچھ دیر بعد، جب ہوا ذرا ٹھنڈی ہوئی
اور باغ میں خاموشی چھا گئی،
تو پطرس نے ہمت کر کے سر باہر نکالا۔
راستہ صاف تھا۔
مسٹر مکگریگر کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔
پطرس آہستہ آہستہ جھاڑی سے نکلا،
کانٹوں سے بچتے ہوئے قدم رکھا
اور دوبارہ باغ میں چلنے لگا۔
🌀 بھول بھلیاں جیسا باغ
یہ باغ بہت پیچیدہ تھا —
کہیں بیلیں تھیں، کہیں سبزیوں کے قطار،
کہیں فصیل، کہیں ٹوکریاں،
اور کہیں گڑھوں میں پانی بھرا ہوا تھا۔
پطرس کو یاد نہیں آ رہا تھا
کہ اصلی دروازہ کس طرف تھا۔
“شاید میں دائیں مڑا تھا… یا بائیں؟”
وہ بڑبڑایا۔
وہ ایک طرف چلا…
پھر واپس…
پھر دوسری طرف…
اور یوں وہ چکر کھانے لگا۔
😥 تھکن اور مایوسی
کئی منٹ گزر گئے۔
پطرس کا دماغ چکرا گیا۔
اس کی چھوٹی سی ناک سوں سوں کر رہی تھی،
اور آنکھوں میں آنسو بھرنے لگے۔
“کیا میں کبھی گھر واپس جا پاؤں گا؟”
اُس نے روتے ہوئے کہا۔
وہ بیٹھ گیا —
تھک کر، ٹوٹ کر، ہار کر۔
مگر تب اچانک…
کچھ مہک آئی۔
🌿 تازہ ہوا… اور دروازہ؟
ہاں!
وہ تازہ مٹی، گھاس، اور ہوا کی خوشبو تھی۔
پطرس نے سونگھا…
پھر ایک طرف دوڑا…
اور تب اُس کی آنکھوں کے سامنے آیا:
دروازہ!
وہی پرانا، لکڑی کا، جس سے وہ اندر آیا تھا۔
“مل گیا! آخر مل گیا!”
وہ خوشی سے چیخا۔
🏃♂️ واپسی کی دوڑ
پطرس نے زور لگا کر بھاگنا شروع کیا۔
وہ خراشوں کی پروا نہیں کر رہا تھا،
نہ جوتوں کی، نہ جیکٹ کی۔
بس دوڑ رہا تھا،
اپنے بل کی طرف…
اپنے گھر کی طرف!
🔚 قسط کا اختتام
دروازے سے نکل کر وہ جنگل کے رستے پر دوڑتا چلا گیا۔
اب وہ مسٹر مکگریگر کے باغ سے بچ نکلا تھا!
مگر گھر پہنچ کر کیا ہوگا؟
کیا ماں ناراض ہو گی؟
کیا بہن بھائی اُس کا مذاق اُڑائیں گے؟
یا وہ سب فکر مند ہوں گے؟