مختصر کہانی: وہ کرسی خالی تھی

ان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا، وہی کرسی کھڑکی کے پاس رکھی تھی۔ سورج کی شعاعیں وہاں آ کر ٹھہر جاتی تھیں۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں:
“یہ روشنی تھوڑی دیر میرے دل کو گرما دیتی ہے، ورنہ تو سب کچھ ٹھنڈا ہو چکا ہے”۔

وہ اب وہاں نہیں تھیں۔
کرسی پر صرف ایک کمبل رکھا تھا۔
اور وہ بھی ویسا ہی تہہ کیا گیا تھا، جیسے وہ کرتی تھیں۔

میں نے ان کی گود میں بیٹھ کر کہانیاں سنیں، اور ان کے ہاتھ سے کٹی ہوئی سیب کی پھاکیں کھائیں۔
وقت گزر گیا۔
میں بڑا ہو گیا۔
اور وہ چھوٹی ہو گئیں۔
پہلے وہ مجھے اسکول چھوڑنے جاتی تھیں، پھر ایک دن میں نے انہیں اسپتال چھوڑا۔

وہ اکثر کہتی تھیں، “بیٹا، جب تم بڑے ہو جاؤ گے، تو شاید مجھے اتنا وقت نہ دو جتنا ابھی دیتے ہو۔ لیکن میری دعائیں وقت سے آگے نکل جاتی ہیں”۔

میں ہنستا تھا، اور ٹال دیتا تھا۔

لیکن آج، اس کرسی کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ وقت واقعی سب کچھ کھا جاتا ہے — یہاں تک کہ وہ آوازیں بھی جو ہمیشہ کے لیے دل میں بستی ہیں۔

میں نے آہستہ سے کرسی پر ہاتھ رکھا۔
ایسا لگا جیسے وہ اب بھی پاس بیٹھی ہوں، اور کہہ رہی ہوں:

“اتنی دیر مت کیا کرو…”

رشتے کبھی شور نہیں مچاتے۔ وہ چپ چاپ ختم ہو جاتے ہیں، اور ہمیں تب پتہ چلتا ہے جب ان کی جگہ صرف ایک خالی کرسی بچتی ہے۔