پیٹ کی اہمیت

دنیا میں اگر کسی عضو نے سب سے زیادہ شہرت پائی ہے تو وہ نہ دماغ ہے، نہ دل، نہ زبان — بلکہ پیٹ ہے۔ جی ہاں! وہی پیٹ جسے ہم محبت سے “توند” بھی کہتے ہیں، اور غصے سے “موٹاپا”۔

سوچنے کی بات ہے کہ اگر انسان کا پیٹ نہ ہوتا تو:

غصے کے عالم میں لوگ "لات" کس پر مارتے؟

شاعر حضرات "پیٹ پالنے" کے بہانے کیوں شعر کہتے؟

اور سب سے بڑھ کر سیاست دان "غریب کے پیٹ کی آگ" بجھانے کے دعوے کیسے کرتے؟

پیٹ ایک ایسا عظیم عضو ہے جو دنیا کے تمام جذبات کا مرکز ہے۔ کسی کا پیٹ خالی ہو تو وہ انقلابی بن جاتا ہے، اور اگر بھر جائے تو حکومتی مشیر۔ بچے کا رونا ہو یا میاں کا غصہ — پیٹ ہی کی کارستانی ہے۔
پیٹ کی اقسام

پیٹ بھی کئی اقسام کا ہوتا ہے:

شاعرانہ پیٹ: جو ہمیشہ خالی رہتا ہے تاکہ شاعری نکلے۔

سیاسی پیٹ: جو کبھی نہیں بھرتا، چاہے پورا بجٹ ہضم کر جائے۔

کاروباری پیٹ: جو فائدہ دیکھ کر ہی کچھ ہضم کرتا ہے۔

پیٹ اور معاشرہ

ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ پیٹ پر ڈالتا ہے۔

“جناب! نوکری کیوں کر رہے ہیں؟”
“پیٹ کے لیے!”

“یہ رشوت کیوں لی؟”
“صاحب! بچوں کا پیٹ پالنا ہے۔”

ایسا لگتا ہے کہ انسان نہیں، صرف پیٹ دنیا چلا رہا ہے۔
پیٹ کی طاقت

پیٹ کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ:

طاقتور پیٹ والے حکمران کہلاتے ہیں۔

کمزور پیٹ والے انقلابی بنتے ہیں۔

اور جو ہر وقت کھاتے رہیں، وہ بلاگر بن جاتے ہیں۔

ایک عام سا پیٹ آدمی کو فلسفی بنا دیتا ہے۔ ذرا سا خالی ہو تو آدمی بیٹھ کر سوچتا ہے کہ “زندگی کا مقصد کیا ہے؟” اور اگر تھوڑا سا بھر جائے تو کہتا ہے “اب نیند پوری ہو جائے۔”
نتیجہ

آخر میں بس اتنا عرض ہے کہ اگر پیٹ نہ ہوتا تو شاعری، سیاست، محبت، کاروبار، فلسفہ — سب مفلوج ہو جاتے۔ پیٹ انسانی تہذیب کی ریڑھ کی ہڈی ہے…

لہٰذا آئیں! پیٹ کی عظمت کو سلام پیش کریں۔ اور اگلی بار جب آپ کو کوئی “توند” کہہ کر چھیڑے… تو فخر سے سینہ (اور پیٹ) تان کر کہیں:

“جناب! یہ صرف چربی نہیں… یہ تہذیب کی علامت ہے!”