گ سے گدھا

(طنز و مزاح پر مبنی اردو کالم)

یہ گدھا ہے۔
گ سے گدھا۔
ایک ایسا جانور جس نے کبھی چھٹی نہیں مانگی، کبھی تنخواہ نہیں بڑھوائی، اور کبھی کسی باس کو “میری سن بھی لو” نہیں کہا — پھر بھی بدنام ہے۔

کہتے ہیں کہ اگر کوئی بہت زیادہ محنت کرے، تو اُسے لوگ شیر نہیں، گدھا کہتے ہیں۔
اب بندہ پوچھے کہ شیر تو دن میں 20 گھنٹے سوتا ہے، اور گدھا صبح سے شام تک بوجھ اٹھاتا ہے۔
لیکن دور ہے طاقت کا، کام کا نہیں۔

گدھے کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ گدھا ہے۔ نہ اسے شاطر بندر جیسا چالاک دماغ ملا، نہ سانپ جیسا زہریلا انداز، اور نہ ہی انسان جیسا جھوٹ بولنے کا ہنر۔
بس کام، خاموشی، اور مار سہنا — یہ اس کی کل زندگی ہے۔

ہمارے معاشرے میں “گدھا” ایک گالی ہے۔
لیکن اگر غور کریں، تو آدھی دنیا گدھوں کی ہی مرہونِ منت ہے۔
دفتروں کے وہ ملازم جو ہفتے کے ساتوں دن باس کی فرمائشوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں،
گلیوں کے وہ ریڑھی بان جو گرمی، سردی اور مہنگائی کے تھپڑ کھا کر بھی چپ رہتے ہیں،
یا وہ طالب علم جو پوری کلاس کی نوٹس بناتے ہیں، پر نمبر استاد کے چاچے کے بھانجے کے آ جاتے ہیں —
سب گدھے ہیں۔ اور فخر سے گدھے ہیں۔

فرق صرف اتنا ہے کہ اصلی گدھا کبھی شکایت نہیں کرتا،
جبکہ انسان نما گدھے دن رات “میں بہت تھک گیا ہوں” کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔

اصل میں گدھا اتنا بھولا ہے کہ اسے آج تک پتہ ہی نہیں چلا کہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔
بلکہ اگر کسی دن وہ سچ میں سمجھ جائے،
تو شاید ریڑھی چھوڑ کر یوٹیوب چینل کھول لے اور کہے:
“میرے ساتھ جو ہوا، وہ سب کے ساتھ ہو سکتا ہے!”
اور چند دن میں ویریفائیڈ بھی ہو جائے!

آخر میں، گدھے کو ہمارا سلام،
جس نے آج تک سچائی کا بوجھ، جھوٹ کی مار، اور زمانے کا طعنہ — سب کچھ اٹھایا۔
اور کبھی دم نہیں ہلائی.