ہم نے پہاڑی چوٹی پر تقریباً دو دن گزارے۔ آہستہ آہستہ آسمان صاف ہونے لگا، اور ہمارے GPS سگنل نے ہمیں قریب ترین جیولوجیکل اسٹیشن سے جوڑ دیا۔
چوتھے دن، ایک ریسکیو ہیلی کاپٹر ہماری جانب بڑھتا دکھائی دیا۔
ہم نے اپنے آپ کو شناخت کیا، پوزیشن شیئر کی، اور کچھ گھنٹوں بعد، ہم زمین سے پھر ایک بار — فضا میں بلند ہوئے۔
ہسپتال میں ہماری مکمل جانچ ہوئی — جسمانی طور پر ہم کمزور تھے، لیکن ہوش و حواس سلامت۔
پروفیسر نے ادارے کو اپنے ابتدائی نوٹس بھیجے۔
میں نے گوتیے کا جرنل محفوظ مقام پر جمع کرا دیا —
اور ہنس… وہ زیادہ کچھ نہ بولا، لیکن اُس کی خاموشی سب کچھ کہہ گئی۔
چند ہفتے بعد، ہماری مہم کا نام سائنسی حلقوں میں گردش کرنے لگا:
“The Vertical Journey: A Scientific Descent into the Earth’s Breath”
ہمارا سفر کوئی “عجوبہ” نہیں بنا — ہم نے نہ کوئی جادو دریافت کیا، نہ ہی کوئی قدیم تہذیب۔
مگر ہم نے کچھ اور اہم پایا:
- زمین کی تہوں میں موجود وہ سکوت جو ہماری زمین کی اصل فطرت کو ظاہر کرتا ہے۔
- انسان کی ذہنی برداشت، جو گہرائی میں جا کر نکھر آتی ہے۔
- اور سب سے بڑھ کر، وہ نامکمل آوازیں — جو شاید ہمیں ہمیشہ واپسی کے لیے پکارتی رہیں گی۔
کہانی کے اختتام پر، ہم تینوں مختلف راہوں پر واپس چلے گئے:
- پروفیسر نے کتاب لکھی: “Beneath the Silence: A Scientist’s Witness to the Earth’s Still Heart”
- ہنس اسکینڈینیویا کے پہاڑوں میں جا بسے — شاید اپنی تنہائی میں اس گہرائی کی بازگشت کو محفوظ رکھنے کے لیے
- اور میں… میں نے یہ سب کچھ لکھا۔
یہ بیس ابواب صرف سفر کا ریکارڈ نہیں ہیں، بلکہ ایک یاد ہیں —
کہ زمین خاموش ہے، لیکن وہ ہماری گواہی کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔
تین انسان۔ ایک مہم۔ اور زمین کی گہرائی میں چھپا ایک ساکت راز۔
زمین کی گہرائیوں میں ایک ایسی مہماتی داستان ہے جو قاری کو سطح سے نیچے لے جا کر نہ صرف چٹانوں اور اندھیروں سے گزارتی ہے، بلکہ انسانی ذہن کی انتہاؤں کو بھی چھوتی ہے۔
یہ کہانی سادہ سائنس سے شروع ہوتی ہے، مگر ایک ایسا سوال پیدا کرتی ہے جو ہر انسان کے اندر کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے:
کیا ہم واقعی سطح کے انسان ہیں؟ یا ہم میں بھی گہرائیوں کی ایک چپ تہہ چھپی ہے؟