قسط نمبر 9: دباؤ کے نیچے

ہم نے جرنل کو آہستہ سے کھولا۔ کئی صفحات نمی سے چپک چکے تھے، مگر درمیان میں ایک جگہ ہاتھ سے لکھا ہوا ملا — واضح اور تیز قلم:

“اگر تم یہ پڑھ رہے ہو، تو سنبھل کر آگے بڑھنا۔ یہ جگہ تمہیں صرف جسمانی طور پر نہیں، ذہنی طور پر بھی توڑتی ہے۔”

ہم خاموش ہو گئے۔

“یہ وہ مقام ہے،” پروفیسر نے آہستہ سے کہا، “جہاں انسان کے ارادے کی اصل آزمائش شروع ہوتی ہے۔”

ہم نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا — جھیل کے دوسرے کنارے ایک پتلی سی سرنگ نیچے جا رہی تھی۔ وہاں سے ہلکی سی گرم بھاپ اٹھ رہی تھی۔

سرنگ میں داخل ہوتے ہی ماحول بدل گیا۔

ہوا بوجھل ہو گئی تھی۔

آکسیجن کم، اور ہوا میں سلفر کی ہلکی سی بُو — ہم نے اپنے کپڑے چہرے پر باندھ لیے۔ مشعلوں کی روشنی اب پتھروں پر سنہری عکس ڈال رہی تھی، جیسے ہر سطح پگھلنے کو ہو۔

پھر جسموں نے اثر لینا شروع کیا۔

میرا سر بھاری ہونے لگا، ہنس بار بار رک کر سانس لینے لگا، اور پروفیسر کی رفتار اب مدھم ہو چکی تھی۔

“ہمیں رکنا ہوگا،” میں نے کہا۔ “یہ ماحول… ہمارے اعصاب پر اثر ڈال رہا ہے۔”

ہم نے ایک کنارے پر بیٹھ کر پانی پیا۔ پروفیسر نے اپنی بیگ سے ایک چھوٹا آکسیجن ماپنے والا آلہ نکالا۔

“ہم ابھی ۳۵ فیصد معمولی آکسیجن پر ہیں،” وہ بولے۔ “یہ حد خطرناک تو نہیں، مگر ہوشیار رہنا ہوگا۔”

پھر اچانک، سرنگ کے آخر میں ہمیں روشنی کی جھلک نظر آئی — قدرتی، لیکن مدھم۔ شاید فاسفورس چٹانوں کی چمک… یا کچھ اور۔

ہم نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔


سرنگ ایک وسیع غار میں کھلتی تھی — مگر یہ غار باقی تمام سے مختلف تھی۔

یہاں فرش ایک دم ہموار تھا، اور درمیان میں ایک گہرا گڑھا تھا — بالکل دائرہ نما۔ ہم نے جھانک کر دیکھا، مگر نیچے صرف اندھیرا۔

اس گڑھے کے کنارے پر ایک اور لکھی تحریر ملی — چٹان پر چاقو سے کندہ کی گئی:

“I dropped my lamp here. It never hit the bottom.”

ہم تینوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے۔

“یہ شاید وہی مقام ہے،” پروفیسر بولے، “جہاں زمین اپنے راز خود نگل لیتی ہے۔”

ہنس نے سر جھکا لیا۔ “مجھے لگتا ہے اب واپس جانا چاہیے…”

اور پہلی بار پروفیسر بھی خاموش رہے۔


(فلیش بیک)
پہلے دن جب ہم ہیمبرگ سے روانہ ہوئے، تو پروفیسر نے کہا تھا، “زمین کا مرکز شاید ہمیں نہ ملے، مگر وہ جو ہم میں ہے — وہ ضرور عیاں ہوگا۔”

اب ہم سمجھنے لگے تھے کہ وہ کیا کہتے تھے۔

یہ سفر شاید نیچے اترنے کا نہیں، اندر دیکھنے کا تھا۔