کمرہ بدستور نیم تاریک تھا۔ دیواروں پر نمی کی تہہ، چھت سے جھولتا بلب کبھی جلتا، کبھی بجھتا۔ رسی سے بندھے ہاتھوں کو سلیم نے کئی بار حرکت دینے کی کوشش کی، مگر ہر بار درد کی ایک نئی لہر اُسے اپنی جگہ بےبس کر دیتی۔
اچانک دروازے کی چٹخنی کھلی۔ سلیم نے نظریں جھکا لیں، جیسے وہ سو رہا ہو۔
تینوں نقاب پوش اندر داخل ہوئے۔ ایک نے لات مار کر سلیم کو سیدھا کیا۔
“جاگ رہا ہے یہ۔ بھول مت جانا، یہ وہی لڑکا ہے جو کافی ہوش مند لگ رہا تھا۔ بینک میں بھی ہمیں غور سے دیکھ رہا تھا۔”
دوسرا نقاب پوش آگے بڑھا، اور سلیم کے چہرے کو قریب سے دیکھتے ہوئے بولا:
“میں شرط لگا سکتا ہوں، یہ ہمیں پہچان چکا ہے۔ ہم نے جتنے بھی چھاپے مارے، کسی نے ایسی نظریں ہم پر نہیں ڈالیں۔”
تیسرے نے بات کاٹی:
“تو کیا کریں؟ یہاں رکھیں، یا…”
ایک لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔
پھر پہلے نے آہستہ مگر سرد لہجے میں کہا:
“کام پورا ہوتے ہی… اسے ختم کر دیتے ہیں۔ آواز بھی نہیں نکلے گی، اور ثبوت بھی نہیں بچے گا۔”
سلیم کے دل کی دھڑکن جیسے رک سی گئی۔ اسے سانس لینا بھول گیا۔ خوف، غصہ اور لاچاری جیسے ایک ہی لمحے اُس کے وجود میں اتر آئے ہوں۔
نقاب پوش واپس چلے گئے۔ دروازہ بند ہوا، تالا لگ گیا۔ سلیم کے لیے یہ لمحہ فیصلہ کن تھا۔ اب یا تو وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے موت کا انتظار کرے، یا کوئی ایسا قدم اٹھائے جو اس کے حق میں جائے۔
وہ آہستہ آہستہ رسی کو کھینچنے لگا۔ اس بار ہاتھ زخمی ہو گئے مگر رسی ہلکی سی ڈھیلی محسوس ہونے لگی۔
اسی کوشش کے دوران اسے اپنے دائیں طرف فرش پر کچھ سخت محسوس ہوا۔ اُس نے انگلیوں سے چھو کر اندازہ لگایا — شاید کوئی پرانا کیل یا تار۔
“اگر میں اسے تھوڑا سا کھینچ سکوں… شاید رسی کاٹ سکوں…”
اسی وقت باہر کمرے سے باتوں کی آواز آئی:
“آج رات کو دوسرا کام بھی مکمل کرنا ہے۔ اسی گاڑی سے نکلیں گے۔ پولیس کو الجھا کر رکھا ہے۔”
سلیم کی آنکھوں میں ایک چمک سی آئی۔
“اگر یہ دوبارہ ڈکیتی کرنے جا رہے ہیں، تو ابھی وقت ہے۔ مجھے کچھ کرنا ہوگا۔”
اسی لمحے دیوار کی ایک دراڑ سے بلب کی روشنی اندر پڑی۔ سلیم کو کونے میں ایک پرانا ٹیپ ریکارڈر نظر آیا۔
اس کا ذہن بجلی کی مانند چمکا:
“اگر میں ان کی باتیں ریکارڈ کر سکوں، تو یہ سب ثبوت بن سکتا ہے!”
مگر کیسے؟
ہاتھ بندھے ہیں، رسی ابھی پوری طرح نہیں کھلی، اور خطرہ ہر لمحے موجود ہے۔
سلیم نے ٹھان لیا:
“یہ میری زندگی کا امتحان ہے… یا میں بچ جاؤں گا، یا ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاؤں گا۔”