یہ اردو ناول مشہور امریکی مصنف بلیک کراؤچ کے سنسنی خیز انگریزی ناول “Run” (2011) سے متاثر ہو کر تخلیق کیا گیا ہے۔ یہ ایک سنسنی خیز، ایکشن سے بھرپور، اور ایڈونچر پر مبنی ماجرا ہے، جس میں ایک عام انسان حادثاتی طور پر ایک خطرناک اور غیر متوقع صورتحال میں پھنس جاتا ہے، جہاں اسے اپنے بچاؤ کے لیے دوڑنا، لڑنا اور جینا پڑتا ہے۔ کہانی میں تیزی، غیر متوقع موڑ، اور مسلسل بے یقینی کا عنصر موجود ہے، جو قاری کو آخری قسط تک باندھے رکھتا ہے۔
قسط 1: پہلا دھماکہ
رات کا وقت تھا۔ آسمان پر تاریکی گہری ہوتی جا رہی تھی۔ نیو میکسیکو کے ایک چھوٹے سے قصبے “سنوٹا” میں ہوائیں خاصی تیز چل رہی تھیں، مگر کچھ بھی غیر معمولی نہ تھا۔
جیک کولر، ایک عام سا آدمی، جو قصبے کے ایک اسکول میں جغرافیہ پڑھاتا تھا، کچن کی کھڑکی کے پاس کھڑا چائے بنا رہا تھا۔ ریڈیو سے کوئی پرانا کاؤنٹری سانگ آہستہ آواز میں بج رہا تھا۔
اچانک…
بووووم!
ایک زوردار دھماکے نے فضاء کو چیر دیا۔ کھڑکی کے شیشے لرز اٹھے۔ جیک نے فوراً سر اٹھا کر باہر دیکھا۔ آسمان کی جانب مشرقی افق پر ایک چمکتی روشنی بلند ہوئی — جیسے آسمان پر آگ بھڑک اٹھی ہو۔
دروازہ زور سے بجا۔ جیک نے دوڑ کر دروازہ کھولا۔ باہر ڈیوڈ کھڑا تھا — جیک کا قریبی دوست، جو مقامی فوجی اڈے پر کام کرتا تھا۔
“جیک! ابھی نکل جاؤ، ابھی!” ڈیوڈ کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ اس کی وردی گرد آلود تھی اور آنکھوں میں خوف چھپا نہ تھا۔
“کیا ہوا ہے؟ یہ روشنی کیسی تھی؟” جیک نے پوچھا۔
ڈیوڈ نے جھنجھلاہٹ سے بازو پکڑ کر کہا،
“اب وقت نہیں ہے سوالات کا! حکومت کچھ چھپا رہی ہے۔ وہ لوگ… وہ لوگ جنہوں نے وہ روشنی دیکھی ہے، بدل رہے ہیں۔ کچھ ہو رہا ہے، اور فوج نے ہمیں حکم دیا ہے: علاقے کو خالی کر دو!”
“کیا مطلب؟”
ڈیوڈ نے جھک کر جیک کی آنکھوں میں دیکھا، “تم پر بھروسہ ہے جیک۔ تمہارا دماغ سلامت ہے۔ اگر تم نے وہ روشنی نہیں دیکھی، تو زندہ رہنے کا موقع ہے۔ بس نکل جاؤ۔ کل دوپہر تک سنوٹا میں رہنے والے سب مردوں کو ‘نیو میکسیکو ملٹری زون 7’ میں پہنچا دیا جائے گا۔ کوئی تاخیر برداشت نہیں ہو گی۔”
جیک پیچھے ہٹا۔ “میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔”
ڈیوڈ نے جلدی سے اس کی بات کاٹ دی: “کوئی اور ہے تمہارے ساتھ؟”
جیک نے سر ہلایا: “میرا چھوٹا بھائی، بین۔ وہ دوسری طرف والے کمرے میں ہے۔”
ڈیوڈ نے سر ہلایا۔ “تو دونوں چلے جاؤ۔ میں تمہیں ایک نقشہ دے رہا ہوں۔ پہاڑوں کے درمیان ایک پرانی سڑک ہے، ہائی وے تھرٹی ایٹ سے بچ کر نکلنا۔ آج رات چھوڑ دو یہ جگہ۔ یہ قصبہ اب ختم ہونے والا ہے۔”
ڈیوڈ نے پلٹ کر ایک آخری بات کہی:
“جیسے ہی تم روانہ ہو جاؤ، ریڈیو بند کر دینا۔ ان فریکوئنسیز پر کچھ… کچھ عجیب نشر ہو رہا ہے۔ کچھ لوگ سن کر پاگل ہو رہے ہیں۔”
جیک کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئی۔
جب وہ پلٹا تو بین سامنے آ چکا تھا، اس کے ہاتھ میں جوتے اور ایک بیک پیک تھا۔
“میں نے سب کچھ سن لیا۔ کب نکل رہے ہیں؟”
جیک نے آہستہ سے کہا، “ابھی۔ فوراً۔”