قسط 11: زون فور کا سفر اور دشمن سے پہلی جھڑپ

صبح سویرے، دھند سے گھری وادی میں تین سائے تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے —
جیک، بین، اور کیپٹن مائیک —
اور ان کے ساتھ نیم بے ہوش لیفٹننٹ بلیک۔

ان کے پاس اب ایک ہی ہدف تھا:
زون فور کا مین گیٹ، جہاں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ وہ کوڈ جسے وہ لے کر جا رہے تھے،
دنیا کو بچائے گا یا برباد کرے گا۔
راستے کی ابتداء — جنوبی بوسٹن کا ویران علاقہ

شہر خالی تھا۔
در و دیوار پر چھاپے اور تباہی کے نشانات۔
بین نے کہا:

“یہاں… کوئی نہیں بچا؟”

کیپٹن نے آہستہ سے کہا:
“یہ علاقہ کئی ہفتے پہلے ایک سائیکونیوٹرل بم کی زد میں آیا تھا… جو دماغی لہریں بدل دیتا ہے۔
لوگ پاگل ہو گئے تھے… یا خود ہی اپنے گھروں کو جلا دیا۔”
پہلا سامنا — “سرچ یونٹ-فائیو”

ایک پرانی سڑک پر آگے بڑھتے ہی، سامنے سے ایک عجیب آواز آئی:

“ٹک… ٹک… سسٹم آن لائن… نیوٹرلائز سبجیکٹس”

ایک بکتر بند سرچ یونٹ ان کے سامنے آ کھڑا ہوا —
انسان نہیں، مشین تھی — مگر اس میں انسانی آواز، انسانی انداز، اور انسانی نفرت موجود تھی۔
تصادم

جیک نے فوراً اپنی بندوق نکالی، مگر کیپٹن نے ہاتھ روکا:

“یہ ہتھیاروں سے نہیں، دماغ سے لڑتا ہے۔
ہمیں نظر سے بچنا ہو گا، لڑنا نہیں۔”

بین نے پوچھا:
“لیکن چھپیں کہاں؟”

ایک پرانا سب وے اسٹیشن ان کے دائیں طرف تھا۔
تینوں فوراً نیچے کود گئے — تاریکی اور بدبو میں چھپ گئے۔
سب وے کی زیر زمین دنیا

پانی کا رساؤ، چوہوں کی آوازیں،
اور دیواروں پر کسی زمانے کے اشتہارات — اب صرف سڑنے کے قریب۔

بین نے مڑ کر دیکھا:
“یہ جگہ تو خود موت ہے۔”

کیپٹن نے جواب دیا:
“لیکن اس موت سے ہم ایک اور موت بچا رہے ہیں۔
زون فور تک پہنچنا ہی نجات ہے۔”
دشمن کا تعاقب

اوپر، سرچ یونٹ ان کے مقام کو ہیٹ سگنلز سے تلاش کر رہا تھا۔
لیکن ان کے پاس ایک آخری کارڈ تھا — لیفٹننٹ بلیک کی انگلی میں لگا
نیورل ٹرانسفر چِپ۔

کیپٹن نے کہا:

“اگر ہم اسے گیٹ تک لے جائیں اور مرکزی کمپیوٹر سے لنک کریں،
تو نہ صرف گیٹ کھل جائے گا…
بلکہ دشمن کا سارا نیٹ ورک ناکارہ ہو جائے گا۔”
منزل قریب

سب وے کے ایک ٹنل سے نکلتے ہوئے، ان کے سامنے ایک بڑا گول دروازہ آ گیا۔
اوپر لکھا تھا:

“زون فور — نیشنل ایگزٹ پروٹوکول گیٹ”

لیکن دروازہ بند تھا۔

کیپٹن نے بلیک کو جگایا،
اور اس کے ہاتھ میں کوڈ والا پرنٹ دیا۔

بلیک نے کمزور آواز میں کہا:
“میں تیار ہوں…”
مگر…!

تبھی دائیں طرف سے ایک چیخ سنائی دی:
“روکو! کوڈ ہمارے حوالے کرو!”

چار مسلح مرد، جدید اسالٹ رائفلز کے ساتھ سامنے آئے —
نہ وہ فوجی تھے، نہ سرکاری ایجنٹ —
بلکہ نجی کنٹریکٹرز — جو صرف کوڈ کے بدلے کروڑوں ڈالر کمانا چاہتے تھے۔
کہانی موڑ پر

جیک نے فوراً پوزیشن سنبھالی۔

کیپٹن نے آخری بار بلیک کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا:
“اب اگر ہم ناکام ہوئے… تو سب کچھ ختم ہو جائے گا۔”