“بین، پانی کی بوتلیں اور کچھ خشک کھانے رکھ لو۔ اور اپنا جیکٹ مت بھولنا، موسم تیز ہو رہا ہے۔”
جیک نے آہستگی سے کہا جبکہ اس کی نظریں اب بھی کھڑکی سے باہر تھیں، جہاں دور روشنی کی چمک مدھم ہو چکی تھی، لیکن آسمان میں سرخی ابھی باقی تھی۔
بین خاموشی سے سر ہلاتے ہوئے چیزیں بیک پیک میں ڈالنے لگا۔
ریڈیو ابھی بھی بج رہا تھا —
“…یہ نیو میکسیکو ایمرجنسی براڈکاسٹ سروس ہے۔ براہ کرم گھروں میں رہیں۔ دروازے بند رکھیں۔ کسی اجنبی پر بھروسہ نہ کریں۔ ہر شخص پر شک کریں۔۔۔”
جیک نے جھٹ سے آگے بڑھ کر ریڈیو بند کر دیا۔
“ڈیوڈ ٹھیک کہہ رہا تھا،” وہ زیرِ لب بولا، “یہ آوازیں ہی پاگل کر دینے کو کافی ہیں۔”
بین نے تھوڑا سا مسکرا کر کہا، “بھائی، ہم واقعی بھاگ رہے ہیں؟ بغیر سمجھے؟”
جیک نے ایک گہری سانس لی، پھر آہستہ سے کہا،
“جب تم ایک فوجی کی آنکھوں میں خوف دیکھو، تو سمجھ جاؤ کہ معاملہ سنگین ہے۔ ہم سوالات بعد میں کریں گے۔ ابھی ہمیں زندہ رہنے کے لیے نکلنا ہے۔”
رات ساڑھے دس بجے
جیک اور بین اپنی پرانی ٹویوٹا پک اپ میں سوار ہو کر گھر سے نکلے۔ سڑک سنسان تھی۔ قصبے کے باہر کی روشنیاں بجھ چکی تھیں۔
“ہائی وے تھرٹی ایٹ سے نہیں جانا،” جیک نے خود سے کہا اور بائیں جانب مڑ گیا۔
نقشے کے مطابق، انہیں ایک پرانی گرول روڈ سے گزر کر پہاڑی علاقے میں داخل ہونا تھا۔
سڑک پر کچھ میل طے کرنے کے بعد، اچانک دور سڑک کنارے ایک گاڑی الٹی پڑی نظر آئی۔
“روکیں؟” بین نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
“نہیں۔” جیک نے فوراً جواب دیا۔ “ڈیوڈ نے خبردار کیا تھا، کسی پر بھروسہ نہیں کرنا۔”
جونہی وہ گاڑی کے قریب سے گزرے، جیک کی نظریں غیر ارادی طور پر اس کے اندر جھانک گئیں —
کار کی پچھلی سیٹ پر ایک شخص بیٹھا تھا، اس کی آنکھیں کھلی تھیں، اور وہ آہستہ آہستہ اپنا سر شیشے سے مار رہا تھا… بار بار۔
بین نے بھی دیکھ لیا اور پیچھے ہو کر کہا، “کیا… وہ انسان تھا؟”
“وہ اب انسان نہیں رہا۔” جیک نے آہستگی سے کہا۔
آدھی رات کا وقت
پہاڑی راستے پر چڑھائی شروع ہو چکی تھی۔ کار کی ہیڈلائٹس سیاہ درختوں کے درمیان راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اچانک ایک گولی کی آواز سنائی دی۔
ٹھاہ!
جیک نے فوراً کار ایک طرف روک دی اور روشنی بند کر دی۔ وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے، سانس روک کر۔
دور درختوں کے پیچھے سے دو سائے نمودار ہوئے — فوجی وردی میں دو افراد، مگر ان کے چہروں پر کچھ عجیب تھا۔ ان کی چال میں لڑکھڑاہٹ تھی اور آنکھیں سفید ہو چکی تھیں۔
“یہ وہی ہیں، جنہوں نے روشنی دیکھی تھی،” جیک نے زیرِ لب کہا۔
بین کی آواز کپکپائی، “یہ… ہمیں دیکھ سکتے ہیں؟”
“نہیں، اگر ہم خاموش رہے، تو شاید گزر جائیں۔”
کچھ دیر بعد وہ سائے دھند کی طرح غائب ہو گئے۔
بین نے گہری سانس لی
“بھائی، ہمیں کب پتہ چلے گا کہ اصل میں ہو کیا رہا ہے؟”
جیک نے آسمان کی طرف دیکھا، جہاں ستارے مدھم پڑ چکے تھے، جیسے وہ بھی خوف زدہ ہوں۔
“جب ہم زندہ رہیں گے… تب۔”