قسط 3: انکشاف

صبح کی ہلکی روشنی پہاڑوں کے پیچھے سے جھانکنے لگی تھی۔ جیک اور بین نے رات کا بیشتر حصہ کار میں، جنگل کی ایک سنسان پگڈنڈی پر چھپ کر گزارا۔

“کیا ہم زیادہ دور آ چکے ہیں؟” بین نے تھکی ہوئی آواز میں پوچھا۔

“نقشے کے مطابق، ہم ’بلیک رِج‘ کے قریب ہیں۔ ڈیوڈ نے کہا تھا، وہاں پرانا ’ملٹری کیمپ زیڈ-سیون‘ ہے۔”
جیک نے جواب دیا اور اسٹیرنگ گھمایا۔

کیمپ زیڈ-سیون تک کا راستہ پتھریلا اور کٹھن تھا۔ آس پاس کہیں کوئی آواز نہیں، نہ پرندے، نہ گاڑیاں، نہ ہوا کا شور۔
بس خاموشی — غیر فطری خاموشی۔

اچانک کار ایک اونچے مورچے کے پیچھے جا کر رک گئی۔ سامنے زنگ آلود دروازے پر لکھا تھا:

“یو ایس گورنمنٹ پراپرٹی – نو انٹری”

لیکن جیک نے دروازے کو دھکیل کر کھولا۔ وہ آسانی سے کھل گیا۔

“یہاں کوئی موجود ہے؟” بین نے آہستہ آواز دی۔

اندر ایک ٹھنڈی، نم آہٹ تھی۔ دیواروں پر پرانے نقشے، مواصلاتی آلات اور ایک خالی اسلحہ خانے کے آثار تھے۔

جیک نے سامنے رکھی میز پر ایک پرانی فائل دیکھی۔ اس پر لکھا تھا:

“پروجیکٹ آئرن اسکائی: کیس نمبر 271 – فیز 3 کمپلیٹڈ”

وہ آہستہ سے فائل کھولتا ہے۔
فائل کا اقتباس (اردو ترجمہ):

"مارچ 10، 2024
تجرباتی ہتھیار "آئرن اسکائی" کو کامیابی سے آسمان میں فائر کیا گیا۔
اثرات:

    مخصوص الیکٹرومیگنیٹک روشنی — انسانی دماغ کے مخصوص نیورونز پر اثرانداز

    جو افراد روشنی کو براہِ راست دیکھتے ہیں، ان کے دماغ میں جارحیت، خودغرضی، اور قابو کھو دینے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے

    حکومت نے کنٹرول کھو دیا ہے
    نوٹ: ایمرجنسی میں نیو میکسیکو کے تمام متاثرہ علاقوں کو ختم کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

    دستخط: لیفٹننٹ میسن (کمانڈر، زون-7)"

جیک نے جیسے ہی فائل بند کی، اس کی آنکھوں میں وحشت اُتر آئی۔

“یہ… یہ سب کچھ حکومت نے خود کیا ہے؟ یہ روشنی… یہ حملہ… یہ سب تجربہ تھا؟”
بین پیچھے ہٹ گیا۔

“ہم تجربے کے چوہے تھے۔” جیک نے سخت لہجے میں کہا۔

اس لمحے ان کے پیچھے دروازے پر آواز ہوئی —
ٹھک… ٹھک…

دونوں نے چونک کر پلٹ کر دیکھا۔ دروازے کے باہر ایک شخص کھڑا تھا۔ ہلکی روشنی میں اس کا چہرہ دکھائی دیا — وہ کوئی فوجی تھا، مگر اس کی وردی پھٹی ہوئی تھی، اور اس کے بازو پر ایک نشان تھا: آئرن اسکائی یونٹ۔

“تم دونوں نے وہ فائل نہیں پڑھی نا؟” اس نے کرخت لہجے میں پوچھا۔

جیک نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا، “تم کون ہو؟”

“میں ہوں کیپٹن مائیک۔ جو کچھ تم نے پڑھا، وہ آدھی حقیقت ہے۔ اصل منصوبہ ابھی باقی ہے۔”