جیک اور بین بے اختیار پیچھے ہٹ گئے۔
کیپٹن مائیک آہستہ آہستہ اندر داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ خالی تھے، لیکن چہرہ سخت اور سرد تھا۔
“اگر تم دونوں زندہ رہنا چاہتے ہو، تو میری بات غور سے سنو،” کیپٹن نے کہا۔ “جو کچھ تم نے فائل میں پڑھا، وہ بس تمہیں خوفزدہ کرنے کے لیے چھوڑا گیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ روشنی اصل میں ایک نیورولوجیکل ہتھیار ہے، جو مخصوص دماغی پیٹرنز کو نشانہ بناتا ہے۔”
جیک نے بات کاٹی، “لیکن یہ ہتھیار کیوں استعمال کیا گیا؟ اپنے ہی شہریوں پر؟”
کیپٹن کی آنکھوں میں ایک پل کو کچھ تذبذب آیا، پھر وہ گویا ہوا:
“یہ سب ایک تجربہ تھا۔ ایک ایسا تجربہ جو قابو سے باہر ہو گیا۔”
بین نے چونک کر کہا، “اور اب تم ہمیں مارنے آئے ہو؟”
“نہیں،” کیپٹن بولا، “میں خود بھی فرار میں ہوں۔ میں اُن میں سے تھا جنہیں روشنی سے بچا کر الگ رکھا گیا۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں… میں بھاگ گیا۔”
جیک نے آہستہ سے کہا، “پھر اب ہمیں کیا کرنا ہو گا؟”
کیپٹن نے ایک چھوٹا سا ریڈیو جیب سے نکالا اور میز پر رکھا۔
“یہ ریڈیو اب بھی ہائی فریکوئنسی پر مرکزی نیٹ ورک سے منسلک ہے۔ روزانہ صبح آٹھ بجے ایک خفیہ پیغام نشر ہوتا ہے — وہ بچ جانے والوں کے لیے ہوتا ہے۔ اگلا پیغام آدھے گھنٹے میں نشر ہو گا۔ تب تک انتظار کرو۔”
آدھے گھنٹے بعد — ریڈیو آن ہوا
ریڈیو سے ایک گھمبیری آواز ابھری:
"اگر تم یہ پیغام سن رہے ہو، تو سنو: زون 7 مکمل طور پر بے قابو ہو چکا ہے۔ صرف زون 4 میں داخل ہونے والوں کو طبی سہولت، خوراک اور پناہ دی جائے گی۔ شمال کی طرف سفر کرو۔ متأثرہ افراد کو گولی مارنے کا حکم جاری ہے۔ حکومت اب کوئی رحم نہیں کرے گی۔"
آواز بند ہو گئی۔
کیپٹن مائیک نے نظریں جیک پر گاڑ دیں:
“یہی تمہاری آخری امید ہے۔ شمال کی طرف جانا۔ لیکن آسان نہ ہو گا۔ راستے میں ہر چیک پوسٹ پر تمہیں ثابت کرنا ہو گا کہ تم روشنی سے محفوظ ہو۔ اور اب وہ خون کا ٹیسٹ کر کے پہچانتے ہیں۔”
بین نے سوال کیا، “اگر ہمیں روک لیا گیا تو؟”
کیپٹن نے جیب سے ایک چھوٹا سرنج نکالا۔
“یہ تمہاری جعلی رپورٹ ہے۔ اس میں وہ کیمیکل ہے جو ٹیسٹ کو نیگیٹو دکھائے گا۔ بس وقت پر استعمال کرنا۔”
جیک نے وہ سرنج سنبھالی، اور آہستگی سے بولا،
“اللہ ہمارے ساتھ ہو۔”
چند منٹ بعد
جیک، بین اور کیپٹن نے بنکر کے دروازے پر آخری بار نظر ڈالی، پھر ٹویوٹا پک اپ میں سوار ہو کر شمال کی سمت روانہ ہو گئے۔
سفر کا آغاز ہو چکا تھا — لیکن یہ سفر ایک ایسی دنیا میں تھا جہاں سچ، جھوٹ، ہوش مندی اور پاگل پن کا فرق مٹ چکا تھا۔