قسط 5: تعاقب

صبح کی روشنی کے ساتھ ٹھنڈی ہوا پہاڑوں سے نیچے اتر رہی تھی۔ جیک، بین، اور کیپٹن مائیک اپنی پرانی ٹویوٹا پک اپ میں ایک سنسان، مگر نسبتاً ہموار راستے پر شمال کی طرف سفر کر رہے تھے۔ گاڑی کی کھڑکی سے باہر نظر آتا منظر بربادی کا عکاس تھا — جلے ہوئے درخت، خالی جھونپڑیاں، اور کبھی کبھار سڑک پر پڑی ہوئی لاشیں، جن پر اب کوئی رکنے والا نہ تھا۔

“ہم اب تک زون 6 میں ہیں،” کیپٹن نے نقشے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ “تقریباً دو دن کی مسافت ہے زون 4 تک۔ لیکن اصل خطرہ راستے میں ہے — چیک پوسٹس۔”

جیک نے آہستہ سے پوچھا، “کیا وہ ہر چیک پوسٹ پر خون کا ٹیسٹ کرتے ہیں؟”

کیپٹن نے اثبات میں سر ہلایا: “اب ہاں۔ پہلے صرف ظاہری علامات دیکھتے تھے، مگر اب حکومت کسی قسم کا خطرہ نہیں لیتی۔”

بین نے پیچھے مڑ کر سڑک کی طرف دیکھا۔ “وہ کون ہے؟”

دور، سڑک پر ایک سیاہ جیپ ان کے پیچھے آ رہی تھی۔ جیپ کی رفتار بڑھتی جا رہی تھی۔

“یہ مسئلہ ہو سکتا ہے،” کیپٹن نے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے کہا۔

ٹویوٹا پک اپ کی رفتار بڑھا دی گئی۔
اب وہ جیپ اور ان کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ جیک نے سڑک سے ہٹ کر کچی پگڈنڈی کی طرف گاڑی موڑی۔

“یہ خطرناک ہے،” بین نے کہا۔

“یہی ہمارا موقع ہے،” جیک نے جواب دیا۔

چند منٹ کے اندر وہ ایک چھوٹے جنگل کے اندر داخل ہو چکے تھے۔ درختوں کے درمیان گاڑی بمشکل گزر پا رہی تھی، مگر جیپ بھی ان کا پیچھا کر رہی تھی — اور اب اس میں سے گولیوں کی آواز بھی آنے لگی۔

ٹھک! ٹھک! ٹھک!

ایک گولی گاڑی کی پچھلی کھڑکی سے ٹکرائی، شیشہ چکناچور ہو گیا۔
“جھک جاؤ!” کیپٹن نے چیخ کر کہا۔

بین نیچے لیٹ گیا۔ جیک نے پوری قوت سے کار موڑی اور ایک ڈھلوان پر نیچے اتر گیا۔

“بس تھوڑا اور،” وہ بڑبڑایا۔

جیپ اب ان سے صرف چند سو میٹر دور تھی۔

اچانک…

سامنے ایک تنگ وادی آ گئی، جس کے درمیان ایک پرانی لکڑی کی پل بنی ہوئی تھی۔

“ہمیں یہ پار کرنا ہو گا، ورنہ پیچھا ختم نہیں ہو گا!” کیپٹن نے کہا۔

جیک نے پوری طاقت سے گاڑی پل کی طرف دوڑائی۔

کریک… کریک…

پل کی لکڑیاں چرچرانے لگیں۔

پک اپ پل پار کر گئی — اور جیسے ہی آخری پہیہ دوسرے کنارے پر پہنچا، جیک نے بریک لگائی، کار سے چھلانگ لگائی اور ایک دستی بارودی مواد (grenade) پل کے درمیان پھینک دیا۔

بووووم!

پل دھماکے سے اڑ گیا۔ پیچھا کرنے والی جیپ اس کے ٹکڑوں کے ساتھ نیچے کھائی میں جا گری۔

خاموشی چھا گئی۔

تینوں زمین پر بیٹھے، پسینہ پسینہ تھے۔ کچھ لمحے تک وہ بس سانس لیتے رہے۔

بین نے آہستگی سے کہا،
“ہم نے پہلا امتحان پاس کر لیا۔”

جیک نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا،
“لیکن آگے اور آنے والے ہیں… اور وہ زیادہ ظالم ہوں گے۔”