رات کی سیاہی نے آسمان کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ستارے مدھم تھے، اور چاند کسی دھند میں چھپا بیٹھا تھا۔ تینوں مسافر — جیک، بین اور کیپٹن مائیک — اب ایک گھنے جنگل کے اندر گہرائی میں موجود تھے، جہاں گاڑی مزید آگے نہیں جا سکتی تھی۔
“ہمیں پیدل چلنا ہو گا،” کیپٹن نے آہستہ کہا، “اس علاقے میں درجنوں نگران ڈرون گشت کرتے ہیں۔ اگر ہم نے روشنی یا آواز پیدا کی، تو ہمارا بچنا ناممکن ہو گا۔”
جیک نے گاڑی کو درختوں کے پیچھے چھپا کر اس کا انجن نکال دیا۔ بین نے چار چھوٹے بیگ تیار کیے، جن میں صرف ضرورت کی اشیاء تھیں — پانی، خشک غذا، فلاس لائٹ، اور وہ چھوٹا ریڈیو۔
رات 11:30 بجے
وہ تینوں اب جنگل کے اندر تنگ راستے پر خاموشی سے چل رہے تھے۔ پرندوں کی آواز بھی بند ہو چکی تھی، اور درختوں کی شاخیں آہستہ آہستہ ہل رہی تھیں جیسے وہ بھی خطرے سے آگاہ ہوں۔
“یہ جنگل زون 5 کے بارڈر سے جڑا ہوا ہے،” کیپٹن نے سرگوشی میں کہا۔ “اس کے بیچ میں ایک پرانا واچ ٹاور ہے، جہاں کچھ سال پہلے جنگلی جانوروں پر تجربات کیے جاتے تھے۔ وہ جگہ خالی پڑی ہے۔ ہم رات وہاں گزار سکتے ہیں۔”
بین نے آہستہ آواز میں پوچھا،
“وہ واچ ٹاور محفوظ ہو گا؟”
“اگر کسی اور نے اسے دریافت نہ کیا ہو۔” کیپٹن کی آواز سرد تھی۔
کئی گھنٹوں کی تھکن کے بعد،
انہیں ایک پہاڑی کے کنارے پر پرانی لکڑی کی تعمیر نظر آئی۔ واچ ٹاور خستہ حالت میں تھا، مگر اب بھی کھڑا تھا۔
جیک نے سیڑھی پر چڑھتے ہوئے اندر جھانکا — خالی۔
“ہمیں کچھ گھنٹوں کی نیند مل سکتی ہے،” اس نے کہا۔
بین فرش پر لیٹ گیا، ریڈیو اپنے سرہانے رکھا، اور چپ چاپ آسمان کو دیکھنے لگا۔
کیپٹن ایک کونے میں بیٹھا نقشے پر نظریں گاڑ کر کچھ حساب لگاتا رہا۔
جیک نے چپکے سے سوال کیا، “کیا واقعی حکومت پورے ملک میں ایسی کارروائیاں کر رہی ہے؟”
کیپٹن نے نگاہ اٹھا کر کہا،
“جو کچھ میں نے دیکھا، اس سے تو یہی لگتا ہے۔ لیکن سب سے خطرناک چیز وہ لوگ ہیں… جو روشنی کی زد میں آ چکے ہیں۔”
“کیا وہ واپس نارمل ہو سکتے ہیں؟”
“نہیں۔ ان کے دماغ کے نیورون جل چکے ہیں۔ وہ صرف ایک کام کر سکتے ہیں — قتل۔ انہیں اپنے اور غیر کا فرق معلوم نہیں ہوتا۔”
رات کے آخری پہر…
بین کی آنکھ کھلی۔ باہر درختوں کے درمیان ایک سرخ روشنی جھلملا رہی تھی۔
اس نے آہستہ سے جیک کو جگایا، “کوئی ہے… نیچے۔”
جیک نے فلاس لائٹ بند کر دی۔ تینوں نیچے جھانکنے لگے۔
ایک شخص درختوں کے بیچ کھڑا تھا۔ ساکت۔
پھر وہ آہستہ آہستہ واچ ٹاور کی طرف بڑھنے لگا۔
“وہ… روشنی دیکھ چکا ہے،” کیپٹن نے سرگوشی کی۔ “اس کی آنکھوں میں وہی چمک ہے۔”
“ہمیں خاموش رہنا ہو گا،” جیک بولا۔
وہ شخص ٹاور کے نیچے آ کر رک گیا۔
چند لمحے مکمل خاموشی میں گزرے…
پھر وہ شخص واپس جنگل میں چلا گیا۔
بین نے پسینہ صاف کرتے ہوئے آہستہ کہا،
“کیا وہ ہمیں محسوس کر سکتا تھا؟”
کیپٹن نے کہا، “ان کی سونگھنے کی صلاحیت انسانی حدوں سے آگے جا چکی ہے۔ بس ہم بچ گئے۔”
صبح کا دھندلا اجالا ٹاور کے شیشوں سے اندر آنے لگا۔
“ہمیں آگے بڑھنا ہو گا،” جیک نے کہا، “یہ صرف ایک رات تھی۔ آگے ایک نئی آزمائش ہمارا انتظار کر رہی ہے۔”