قسط 7: رازوں کا انکشاف

صبح کا وقت تھا۔ دھند اب بھی درختوں کے درمیان معلق تھی۔ پرندوں کی آوازیں لوٹ چکی تھیں، گویا جنگل خود کو زندہ ظاہر کر رہا ہو، مگر واچ ٹاور کے اندر فضا اب بھی سنجیدہ اور بوجھل تھی۔

جیک نے ایک آخری بار ٹاور کے نیچے جھانکا۔ وہ پراسرار شخص غائب ہو چکا تھا، لیکن قدموں کے نشانات مٹی پر واضح تھے۔

“ہمیں جلدی نکلنا ہو گا۔” کیپٹن مائیک نے اپنی بندوق سنبھالی، “جیسے جیسے ہم زون 4 کے قریب ہوں گے، راستے خطرناک ہوتے جائیں گے۔ اور حکومت کے اہلکار اب صرف حکم پر چلتے ہیں… عقل پر نہیں۔”

بین نے ہلکے سے سر ہلایا اور بیک پیک اٹھایا۔

چند گھنٹوں کے پیدل سفر کے بعد وہ ایک کھلی چراگاہ میں داخل ہوئے، جہاں ایک پرانی، زنگ آلود گاڑی کھڑی تھی — شاید کوئی اسے چھوڑ گیا تھا۔

کیپٹن نے دروازہ کھولا، “انجن خراب ہے، مگر اس میں کچھ دلچسپ چیزیں ہو سکتی ہیں۔”

ڈِیش بورڈ پر ایک ریڈیو ڈیوائس رکھی تھی، جو اب بھی پاور سے منسلک تھی۔ کیپٹن نے اسے آن کیا، اور جلد ہی ایک خفیہ پیغام نشر ہوا:

"زون 4 میں داخلے کے لیے نئی ہدایت: صرف وہی افراد محفوظ تصور ہوں گے جن کے پاس ’آئرن اسکائی‘ کا کوڈ نمبر موجود ہو۔ دیگر افراد کو فوری طور پر ختم کر دیا جائے گا۔"

بین نے حیرت سے پوچھا،
“یہ ’آئرن اسکائی‘ کا کوڈ کیا ہے؟”

کیپٹن نے چند لمحے خاموشی اختیار کی، پھر آہستہ سے بولا،
“یہی وہ راز ہے جس نے سب کچھ برباد کر دیا۔”
کیپٹن مائیک کی زبانی — اصل انکشاف:

“تقریباً دو سال قبل، حکومت نے ’پروجیکٹ آئرن اسکائی‘ کے نام سے ایک خفیہ منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبے کا مقصد تھا کہ دشمنوں کو بغیر گولی چلائے شکست دی جائے — ان کے دماغ کو کنٹرول کر کے۔

اس مقصد کے لیے ایک مخصوص فریکوئنسی کی شعاع تیار کی گئی — جسے ’نیورولوجیکل ریڈ وِیو‘ کہا گیا۔ اس کا اثر یہ تھا کہ جو بھی اسے دیکھتا، اس کے دماغ میں شدید تبدیلی آتی۔ کچھ لوگوں کے دماغ پر مکمل قابو پا لیا جاتا تھا… کچھ لوگ مکمل پاگل ہو جاتے تھے۔

شروع میں یہ تجربات صرف قیدیوں پر کیے گئے۔ پھر حکومت نے فیصلہ کیا کہ ایک چھوٹے علاقے — زون 7 — میں اسے مکمل نشر کیا جائے۔ وہ چاہتے تھے کہ دیکھیں، کیا ایک مکمل آبادی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

لیکن پھر، جیسے ہی شعاع نشر ہوئی… سسٹم فیل ہو گیا۔ نہ سگنل رک سکا، نہ اثر۔ لوگ پاگل ہونے لگے، ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے، گھروں میں آگ لگا دی گئی۔ اور پھر حکومت نے فیصلہ کیا — زون کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔

سینکڑوں مرد مارے گئے۔ اور باقی… شکار بن گئے۔”

جیک خاموش بیٹھا رہا۔ پھر آہستہ سے کہا،
“اور اب وہ چاہتے ہیں کہ بچ جانے والوں پر بھی قابو پا لیں؟”

کیپٹن نے سر ہلایا، “اگر ہم زون 4 تک پہنچ گئے، اور ان کے ’کوڈ‘ کے بغیر پہنچے — تو ہم بھی ختم کر دیے جائیں گے۔”

بین نے حیرت سے پوچھا،
“تو ہمیں یہ کوڈ کہاں سے ملے گا؟”

کیپٹن نے اپنے بیک پیک سے ایک فولڈر نکالا — اس پر لکھا تھا:

“آئرن اسکائی: کوڈ پروٹوکول B-17”

“یہی ہمارا واحد راستہ ہے،” اس نے کہا۔
“مگر اسے حاصل کرنے کے لیے ہمیں ایک آخری مقام پر جانا ہو گا — ایک جگہ جسے ’سائیلنٹ فیسیلٹی‘ کہتے ہیں۔”

جیک نے آہستہ سے کہا:
“پھر ہم وہیں جائیں گے۔ کیونکہ اب پیچھے مڑنے کا مطلب ہے… موت، صرف موت۔”