صبح سویرے، جب سورج درختوں کے پیچھے سے جھانکنے لگا، جیک، بین، اور کیپٹن مائیک نے پرانی چراگاہ سے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔ ان کا نیا ہدف تھا:
سائلنٹ فیسیلٹی — وہ جگہ جہاں “آئرن اسکائی” کا اصل کوڈ محفوظ تھا۔
راستہ طویل اور خطرناک تھا۔
مگر اب واپسی کا سوال ہی نہ تھا۔
سفر کی ابتدا
کیپٹن نے اپنے ہاتھ سے بنے ہوئے نقشے پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا:
“ہمیں پہلے پرانے ہائی وے ۳۸ تک پہنچنا ہو گا۔ وہاں سے شمال مشرق کی طرف مڑ کر ماؤنٹ شیلڈ کے دامن میں داخل ہوں گے۔”
بین نے سر اُٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا، “ہمیں کتنے دن لگیں گے؟”
“اگر ہم راستے میں چھپتے چھپاتے چلیں تو دو دن۔ اگر کچھ غلط ہو گیا… تو زیادہ بھی لگ سکتے ہیں۔”
راستے میں ایک قافلہ
چلتے چلتے، سہ پہر کے وقت وہ ایک ویران شاہراہ پر پہنچے۔ اچانک، جیک نے دور سے ایک چھوٹا قافلہ آتے دیکھا — تین جیپیں، ایک موٹر سائیکل، اور سب سے پیچھے ایک بکتر بند ٹرک۔
“چھپ جاؤ!” کیپٹن نے فوراً کہا۔
وہ تینوں سڑک کے کنارے ایک کھائی میں جھک گئے۔
قافلہ آہستہ آہستہ ان کے قریب آیا۔
بین نے سرگوشی میں پوچھا,
“یہ لوگ کون ہو سکتے ہیں؟”
کیپٹن نے جواب دیا، “یہ ’زون فور سیفٹی یونٹ‘ ہے۔ یہ صرف ان لوگوں کو آگے جانے دیتے ہیں جن کے پاس ’آئرن اسکائی’ کا کوڈ ہو۔ باقیوں کو… وہیں ختم کر دیتے ہیں۔”
جیک نے غور سے دیکھا — ہر گاڑی کے آگے ایک اسکینر لگا ہوا تھا، جو ہر گزرنے والے مقام کا ڈیٹا چیک کر رہا تھا۔
پھر انہوں نے سنا:
"کوڈ بی-17 تصدیق ہو گیا۔ اجازت ہے۔"
قافلہ آہستہ آہستہ مڑ کر ایک خفیہ راستے میں داخل ہو گیا — ایک وہی راستہ جو سائلنٹ فیسیلٹی کی طرف جاتا تھا۔
اندر جانے کا منصوبہ
کیپٹن نے قافلے کے پیچھے ہٹتے ہی کہا:
“اب ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں — یا تو ہم اس راستے میں چپکے سے داخل ہوں، یا کسی سے کوڈ حاصل کریں۔”
بین نے پوچھا، “کیا تمہارے پاس وہ کوڈ نہیں ہے؟”
کیپٹن نے دھیرے سے سر ہلایا،
“میرے پاس فائل ہے… مگر کوڈ اس میں نہیں۔ وہ کوڈ صرف ایک شخص کے دماغ میں ہے — اور وہ اب سائلنٹ فیسیلٹی کے اندر ہے۔”
“کون؟” جیک نے پوچھا۔
کیپٹن کی آواز مدھم ہو گئی:
"میرا پرانا ساتھی — لیفٹننٹ بلیک۔"
رات کی تیاری
تینوں نے قریبی پہاڑی کی اوٹ میں رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔
وہ جانتے تھے کہ کل کا دن فیصلہ کن ہو گا۔
بین اپنے بیگ سے تھوڑا سا خشک کھانا نکال کر کھا رہا تھا۔
جیک نے آسمان کی طرف دیکھا اور دھیرے سے کہا:
“اگر ہم کامیاب ہو گئے… تو کیا دنیا ویسی ہو جائے گی جیسی پہلے تھی؟”
کیپٹن نے کہا:
“نہیں۔ لیکن شاید ہم دنیا کو اس تباہی سے بچا سکیں، جو باقی ہے۔”
اگلی صبح
ان کا سفر سائلنٹ فیسیلٹی کی طرف شروع ہونے کو تھا —
ایک ایسی جگہ جہاں حکومت نے وہ سب چھپا رکھا تھا جسے دنیا کبھی جان نہ پاتی۔