راکا پوشی کی وہ برفانی دیوار — جو کیمپ سے آگے ایک آسمانی دیوار کی طرح کھڑی تھی —
اب تین انسانوں کے ارادے آزمانے کو تیار تھی۔
سرمد، مارٹن، اور رچرڈ —
تینوں کے دلوں میں کچھ اور تھا۔
مگر مقصد ایک — چوٹی۔
🔹 کیمپ تھری کا قیام
کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد،
برفانی تودے کے ملبے سے ہٹ کر، ایک نیا مقام منتخب کیا گیا۔
سرمد نے رسیاں گاڑیں، مارٹن نے ice screws مضبوط کیے،
اور رچرڈ برف صاف کرکے خیمے کی جگہ تیار کرتا رہا۔
“یہاں رات گزارنا ممکن ہے؟” رچرڈ نے پوچھا۔
مارٹن: “اگر ہم ایک دوسرے پر بھروسہ رکھیں — تو پہاڑ بھی مہربان ہو جاتا ہے۔”
خیمہ لگا، گرم پانی تیار کیا گیا، اور تینوں نے تھوڑا سا freeze-dried کھانا بانٹ کر کھایا۔
رات سرد تھی، مگر سکون دہ —
پہلی بار، سب کو یقین ہوا کہ وہ اگلے مرحلے تک پہنچ سکتے ہیں۔
🔹 سفید دیوار — پہلا حملہ
اگلی صبح سورج کی ہلکی روشنی میں برف چمکنے لگی۔
سرمد نے آگے بڑھ کر سب سے پہلا قدم سفید دیوار پر رکھا۔
ہوا کی سائیں سائیں، برف کی چمک، اور نیچے گہری خاموشی۔
یہ دنیا سے کٹا ایک مقام تھا — جہاں صرف ارادہ زندہ رہتا ہے۔
چڑھائی عمودی تھی، مشکل، اور ہر قدم پر جان کو خطرہ۔
سرمد کی انگلیاں جم چکی تھیں، مارٹن کی سانس تیز ہو چکی تھی،
اور رچرڈ کے پاؤں پھسلے بھی، مگر رسیوں نے سہارا دیا۔
تینوں نے پہلا برفانی ledge (میدان) عبور کر لیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جہاں واپسی کی راہ دھندلا گئی —
اور صرف اوپر جانا ممکن رہا۔
🔹 خواب کا پہلا نشان
دوپہر کے وقت سرمد کی نظر ایک برف میں دھنسے بوٹ پر پڑی۔
پرانا، مٹی سے بھرا، اور برف سے جمی ہوئی چمڑا۔
اس نے بوٹ نکالا —
اندر ایک دھاگے سے بندھی دعاؤں کی مالا تھی۔
بالکل ویسی جیسے اس کے والد پہنا کرتے تھے۔
اس کا دل دھڑک اٹھا۔
اس نے آنکھیں بند کر کے ایک گہرا سانس لیا۔
“اب میں قریب ہوں…”
اس نے آہستہ کہا، جیسے کسی نے سن لیا ہو۔
مارٹن نے پوچھا:
“کیا ملا؟”
سرمد نے کہا:
“یادیں۔”
اور بوٹ کو اپنے بیگ میں رکھ لیا۔