قسط 2: لندن میں ملاقات

دو ہفتے قبل —
لندن، ایک سنجیدہ مگر سادہ کانفرنس ہال، جس کی کھڑکیوں سے ٹیمز دریا کی مٹیالے پانی کی چھلکیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ باہر ہلکی بارش ہو رہی تھی، مگر اندر ماحول خشک اور رسمی تھا۔

کمرے میں چھ افراد موجود تھے۔ میز کے سرے پر ایک شخص کھڑا تھا، درمیانی عمر، چوڑا جبڑا، تنے ہوئے بازو، اور لہجہ ایسا جیسے فیصلہ سنانے کا عادی ہو۔

“میں ہوں مارٹن ہال۔”
اس نے اونچی مگر صاف آواز میں کہا۔ “میں راکا پوشی مہم کا لیڈر ہوں۔ جو لوگ سنجیدہ نہیں، وہ ابھی جا سکتے ہیں۔”

میز پر خاموشی چھا گئی۔

“راکا پوشی، سات ہزار آٹھ سو چورانوے میٹر بلند پہاڑ ہے۔ اسے ‘نیکڈ ماؤنٹین’ بھی کہا جاتا ہے۔ مگر ہمارے مقصد کے لیے یہ صرف ایک چیلنج ہے — ایک خواب۔”

ایک شخص نے پوچھا، “یہ نیپال میں ہے؟”

مارٹن کی تیوری چڑھ گئی۔
“نہیں۔ پاکستان کے شمال میں — ہنزہ کے قریب نگر وادی میں۔ پہاڑ خوبصورت بھی ہے، خطرناک بھی۔ پچھلے پانچ سال میں تین ٹیمیں واپس نہ آ سکیں۔”

سب کی نگاہیں نیچے جھک گئیں۔ صرف ایک شخص تھا جو خاموشی سے مارٹن کو دیکھتا رہا۔

مارٹن کی نگاہ اس پر پڑی۔ “تم؟ تم ہی ہو وہ پاکستانی؟”

“جی۔”
سیدھا، مختصر، اور پُراسرار سا جواب۔
“نام؟”

“سرمد خان۔”

مارٹن نے فائل الٹائی۔
“تمہارے والد کا نام بھی یہاں ہے۔۔۔ خالد خان؟”
سرمد کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے چمک آئی، پھر مدھم ہو گئی۔

“وہ راکا پوشی پر لاپتہ ہو گئے تھے۔ آج سے پندرہ سال پہلے۔”
مارٹن نے ایک سرد آہ بھری۔ “اور تم اسی پہاڑ پر جا رہے ہو؟”

“میں وہاں مکمل ہونے جا رہا ہوں۔”

خاموشی چھا گئی۔
یہ وہ خاموشی تھی جو بلند پہاڑوں سے پہلے آتی ہے۔

مارٹن نے ٹیم کا تعارف کروایا:

لارنس پیٹرز: طبی ماہر، عمر تقریباً چالیس، نرمی سے بات کرنے والا

رچرڈ اسٹون: مشینری اور ٹیکنیکل آلات کا ماہر

ہیوگو ملر: پُر جوش نوجوان، پہلی بار بڑی مہم میں شامل

جیمز فورسٹر: سابق فوجی، تجربہ کار، مگر کم گو

مارٹن نے کہا، “ہم مکمل خود کفیل ٹیم ہوں گے۔ پاکستان میں صرف لوکل پورٹرز اور بیس کیمپ کی مدد لیں گے۔ باقی سب ہمارا کام ہے۔”

رچرڈ نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “اور سرمد کیا کرے گا؟”

مارٹن نے کہا، “سرمد ہماری راہنمائی کرے گا۔ یہ پہاڑ اس کے خون میں ہے۔”

سرمد نے نظریں ہٹا لیں۔
اُسے اپنے والد کا چہرہ یاد آیا، برف سے ڈھکا ہوا، دھندلا سا۔
اور وہ آخری جملہ، جو اس نے سنا تھا:
“اگر کبھی تم راکا پوشی گئے، تو میری آنکھیں بند کر دینا۔”

بارش کی بوندیں کھڑکی پر تیزی سے برسنے لگیں۔
باہر لندن کا شام ڈھلتا آسمان تاریکی میں ڈھل رہا تھا۔

اندر — چھ مرد ایک خاموش جنگ کی طرف بڑھ رہے تھے۔
ایک پہاڑ، جو ان سب سے بلند، قدیم اور خاموش تھا — انتظار کر رہا تھا۔