قسط 3: راولپنڈی سے نگر وادی تک کا سفر

اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر صبح کے ساڑھے پانچ بجے کا وقت تھا۔ خنکی کچھ زیادہ تھی، حالانکہ جون کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ فضا میں نمی تھی اور پہاڑی دھند کسی پردے کی طرح دور تک چھائی ہوئی تھی۔

مارٹن ہال، اپنے مخصوص فوجی انداز میں، سامان کی فہرست چیک کر رہا تھا۔
“سیٹلائٹ فون؟”
“چیک۔”
“ہائی آلٹیٹیوڈ ٹینٹس؟”
“چیک۔”
“اکسیجن سپورٹ؟”
“چیک۔”

لارنس، جو قدرے نیند سے بوجھل لگ رہا تھا، ایک کونے میں پاکستانی چائے کی چسکیاں لے رہا تھا۔
“یہ چائے… حیرت انگیز ہے!”
ہیوگو نے ہنستے ہوئے کہا، “یہ چائے نہیں، جادو ہے۔”

سامان خچروں پر نہیں، بلکہ ایک مخصوص فور بائی فور گاڑی کے ذریعے گلگت بھیجا جانا تھا۔ مگر ٹیم خود راولپنڈی سے اسلام آباد کے قریب ایک نجی ٹریول ایجنسی کے ذریعے روانہ ہوئی، جو پہاڑی مہمات کا انتظام کرتی تھی۔

گاڑی میں بیٹھتے ہی سرمد نے خود کو دوسروں سے الگ محسوس کیا۔ شاید اس لیے کہ وہ سب آپس میں ایک جیسے تھے — رنگ، لہجہ، انداز — اور وہ ان سب سے مختلف تھا۔ مگر اصل فرق اور تھا۔ وہ اس مہم میں اپنی جان کا امتحان نہیں دے رہا تھا، بلکہ ایک سوال کا جواب ڈھونڈ رہا تھا۔

گاڑی قراقرم ہائی وے پر رواں ہو چکی تھی۔ نیچے دریائے سندھ بل کھاتا جا رہا تھا، اور اوپر فلک بوس چٹانیں کسی عظیم دروازے کی طرح کھڑی تھیں۔

رچرڈ نے قراقرم کی طرف دیکھ کر کہا:
“یہ پہاڑ… عجیب سے ہیں۔ جیسے کسی اور دنیا کے ہوں۔”

مارٹن نے سر ہلایا۔
“انسان کی اصل دشمنی قدرت سے نہیں، اپنے غرور سے ہوتی ہے۔ پہاڑ صرف خاموشی سے دیکھتے ہیں — گرایا وہی جاتا ہے جو خود کو ناقابلِ شکست سمجھتا ہے۔”

گلگت پہنچتے پہنچتے شام ہو چکی تھی۔ پہاڑوں کا سایہ شہر پر یوں چھایا تھا جیسے کوئی بہت بڑا پرندہ پر پھیلائے بیٹھا ہو۔ مقامی ہوٹل میں قیام کے بعد اگلے دن ان کی روانگی نگر وادی کی طرف تھی، جو راکا پوشی کے دامن میں واقع ہے۔

راستے میں چھوٹے چھوٹے گاؤں، تنگ سڑکیں، اور قدرت کی ہر وہ شے تھی جو مغربی دنیا میں صرف تصویروں میں دکھائی دیتی ہے۔ بچے بھاگتے ہوئے ہاتھ ہلا رہے تھے، بوڑھے سفید عماموں میں دعاؤں کی طرح خاموش بیٹھے تھے، اور فضا میں صرف دو آوازیں تھیں — ہوا کی سرسراہٹ اور دریا کی گونج۔

آخرکار نگر وادی آ گیا۔
پہاڑ یکایک قریبی ہو گئے، جیسے ایک دیو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا ہو۔
اور پھر وہ لمحہ آیا — جب راکا پوشی کی چوٹی پہلی بار دکھائی دی۔

سفید، چمکتی ہوئی، خوفناک — اور غیر حقیقی حد تک خوبصورت۔
چوٹی پر سورج کی کرن یوں پڑی جیسے کسی بزرگ کے سفید سر پر دستِ نور رکھا گیا ہو۔

ہیوگو نے حیرت سے کہا، “کیا واقعی ہم اس پہاڑ پر چڑھیں گے؟”
مارٹن نے صرف اتنا کہا، “اگر قسمت نے اجازت دی۔”

سرمد خاموش رہا۔
اُس نے نظریں نیچی کیں، اور دل میں صرف ایک دعا کی:

“اے مالک، مجھے اس پہاڑ سے وہ واپس دے دے جو میں کھو چکا ہوں۔”