قسط 5: کشیدگی، کم آکسیجن، اور پہاڑ کا پہلا امتحان

صبح کی روشنی میں پہاڑ کا منظر ایسا تھا جیسے سفید مٹی میں کسی نازک فنکار نے قدرت کی انگلیوں سے تراش کاری کی ہو۔
مگر پہاڑ کی خوبصورتی دھوکہ تھی — اور ٹیم اسے سمجھنے لگی تھی۔

مارٹن نے سب کو مرکزی خیمے میں جمع کیا:
“ہم سیدھا چوٹی کی طرف نہیں جا سکتے۔ ہمیں پہلے acclimatization کرنا ہوگا۔”

ہیوگو نے چہرہ سکیڑا:
“یعنی ہم چڑھیں گے… پھر واپس نیچے؟”

لارنس نے وضاحت دی:
“بالکل۔ اونچائی پر جسم کو کم آکسیجن کا عادی بنانا ہوتا ہے۔ اگر سیدھا اوپر گئے تو ‘ہائی آلٹیٹیوڈ سِکنس’ ہو جائے گی — سر درد، متلی، حتیٰ کہ موت بھی۔”

مارٹن نے سرمد کی طرف دیکھا، جیسے اُس کی تائید چاہ رہا ہو۔
سرمد نے مختصر جواب دیا:
“یہ پہاڑ تمہیں اس کی مرضی کے بغیر اوپر جانے نہیں دے گا۔”
⛺ پہلا قدم: کیمپ 1 کی طرف جزوی چڑھائی

اگلے دن وہ پانچوں کوہ پیما — مارٹن، سرمد، لارنس، رچرڈ، اور ہیوگو — ایک ابتدائی ریکّی چڑھائی پر روانہ ہوئے۔
مقصد یہ تھا کہ ۵ ہزار میٹر کی سطح تک جائیں، خیمہ لگا کر کچھ گھنٹے گزاریں، اور واپس بیس کیمپ آ جائیں۔

راستہ شروع ہوتے ہی چٹانیں نرم برف سے ڈھکی ہوئی تھیں۔
ہر قدم میں پیر دھنس جاتا، اور توازن برقرار رکھنا ایک الگ جنگ تھی۔

ہوا پتلی تھی۔

لارنس کچھ دیر بعد ہانپنے لگا۔
“یہ… یہ سانس… نہیں آ رہا…”

رچرڈ جھنجھلا گیا:
“ہم پہاڑ پر چڑھنے آئے ہیں یا سانس لینے؟”

مارٹن نے غصے سے کہا،
“خاموش رہو! یہ کھیل نہیں ہے۔ آکسیجن یہاں قیمت مانگتی ہے!”

سرمد آگے بڑھ کر لارنس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
“بیٹھ جاؤ۔ پانی لو۔”

چند گھنٹوں بعد وہ ایک پتھریلے کنارے پر پہنچے جہاں ایک چھوٹا خیمہ لگایا گیا۔
ہر ایک کے چہرے پر تھکن، پسینہ اور برف کے نشان تھے۔
چند لمحے وہ خاموش بیٹھے رہے، جیسے پہاڑ کو سن رہے ہوں۔

مارٹن نے سرمد سے پوچھا،
“یہی راستہ ہے نا؟”

“راستہ وہی ہے جو پہاڑ ہمیں دے۔ ہمیں اس پر اپنا نقش نہیں بنانا، اس کے قدموں پر چلنا ہے۔”

مارٹن چپ ہو گیا۔
🌑 رات کی واپسی اور ایک واقعہ

بیچ راستے میں برفباری شروع ہو گئی۔
راستہ دھندلا پڑنے لگا، اور کچھ پتھر ڈھلکنے لگے۔
اچانک، ہیوگو کا پیر پھسلا — وہ گھٹنے تک دراڑ میں دھنس گیا۔

“ہیوگو!”
سب نے دوڑ کر اُسے کھینچا۔ رسی وقت پر کام آئی۔
مگر اس کا ایک پیر زخمی ہو چکا تھا۔

رچرڈ چلایا،
“یہ تو ابھی آغاز ہے! اگر ایک دن میں یہ حال ہے تو اگلے ہفتے کیا ہوگا؟”

مارٹن نے دانت پیستے ہوئے کہا،
“جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اب یا آگے جاؤ یا واپس لوٹ جاؤ۔”

سب کی نگاہیں سرمد پر تھیں۔
اس نے آسمان کی طرف دیکھا — جہاں بادلوں کے پیچھے سے راکا پوشی کی سفید چمک دھندلی ہو چکی تھی۔

“یہ پہاڑ ہمیں پرکھ رہا ہے۔ اگلی بار، یہ نرم نہیں ہوگا۔”
🌄 اگلی صبح — خاموشی کا احساس

بیسی کیمپ واپسی پر ہر کوئی خاموش تھا۔
نہ کسی نے فتح کی بات کی، نہ چوٹی کی۔