رات کا وقت تھا۔
بیس کیمپ کے خیموں پر برف پڑ رہی تھی، مگر آسمان صاف تھا۔ دور سے راکا پوشی کی سفید چمک یوں لگ رہی تھی جیسے کوئی دیو قامت مجسمہ خاموش کھڑا آسمان کو تکتا ہو۔ ہر چیز تھکی ہوئی تھی — انسان، خیمے، اور خود خاموشی۔
سرمد اپنے الگ تھلگ خیمے میں بیٹھا تھا۔
ایک پرانی، چرمی جلد کی ڈائری اس کے ہاتھ میں تھی۔
ڈائری اُس کے والد کی تھی — خالد خان — وہی شخص جو پندرہ سال پہلے راکا پوشی کی گود میں ہمیشہ کے لیے سو گیا تھا۔
ڈائری کے پہلے صفحے پر صرف ایک جملہ لکھا تھا:
“اگر پہاڑ خاموش ہے، تو سمجھو وہ تمہیں سن رہا ہے۔ اگر وہ گونج رہا ہے، تو بھاگ جاؤ۔”
سرمد نے ایک گہری سانس لی اور ورق پلٹنا شروع کیا۔
"١٢ جولائی... بیس کیمپ۔
آج راکا پوشی نے ہمیں پہلی بار دیکھا۔ کچھ عجیب ہے اس پہاڑ میں۔ جیسے یہ پہاڑ ‘ہاں’ یا ‘نہ’ کہنے کی طاقت رکھتا ہے۔"
"١٥ جولائی... کیمپ ٢ سے واپسی۔
ہم نے راستہ کھو دیا۔ کوئی شور نہیں تھا، بس برف کی سرد سانسیں۔
آج ایک لمحے کو مجھے لگا کہ پہاڑ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔"
"١٨ جولائی...
میں نے خواب میں ایک سفید آنکھ دیکھی۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھی، بغیر پلک جھپکائے۔
مجھے ڈر ہے، ہم بہت آگے جا چکے ہیں۔"
سرمد نے ڈائری بند کر دی۔
وہ بچہ تھا، جب والد کی لاش نہ ملنے کے بعد لوگ کہتے تھے:
“راکا پوشی نے اُسے قبول نہیں کیا۔”
کسی نے کہا، “وہ نیچے کہیں دفن ہو گیا ہوگا۔”
کسی نے کہا، “وہ پہاڑ کا ہو چکا ہے۔”
لیکن سرمد کبھی اس پہاڑ سے ناراض نہیں ہوا۔
اگلی صبح
مارٹن نے سب کو جمع کیا:
“دو دن کے اندر ہم کیمپ 1 مکمل کریں گے۔ پھر آہستہ آہستہ اوپر بڑھیں گے۔ کوئی پیچھے نہیں رہے گا۔”
سرمد خاموش کھڑا رہا۔
لارنس نے قریب آ کر آہستہ سے پوچھا:
“تم ہر وقت اتنے خاموش کیوں ہو؟”
سرمد نے آہستگی سے کہا:
“جب تم پہاڑ کو سننا چاہتے ہو، تو بولنا چھوڑنا پڑتا ہے۔”
لارنس نے حیرت سے اسے دیکھا، اور کچھ کہے بغیر واپس چلا گیا۔