قسط 7: کیمپ 1 کی تنصیب، پہلا حادثہ

صبح کی روشنی میں راکا پوشی یوں نظر آ رہی تھی جیسے کوئی بزرگ درویش برف میں لپٹا مراقبے میں ہو — خاموش، مطمئن، اور مکمل۔ مگر وہ سب جانتے تھے: یہ سکون وقتی ہے۔ پہاڑ ہر قدم کا حساب رکھتا ہے۔

کیمپ 1 کی تیاری
پانچ رکنی ٹیم اور مقامی پورٹرز اگلے مرحلے کی طرف بڑھ رہے تھے۔
مقصد تھا کہ ۵۲۰۰ میٹر کی بلندی پر کیمپ ۱ قائم کیا جائے۔ اس کی ضرورت محض آرام گاہ کے طور پر نہیں بلکہ acclimatization cycle کا حصہ تھی۔

راستہ اب تنگ اور مشکل ہو چکا تھا —
پتھریلی سلیں، برف کے نیچے چھپی دراڑیں، اور ہر قدم پر دھوکہ۔

سرمد آگے تھا، مارٹن برابر میں، اور باقی پیچھے۔
انھوں نے فکسڈ رسی باندھنی شروع کی، تاکہ دیگر ممبران آسانی سے چڑھ سکیں۔

پہلا خطرہ
چڑھائی کے بیچ میں اچانک ایک “کریواس” — برف میں گہری دراڑ — کے قریب پہنچتے ہی ہیوگو کا پیر ایک نرم برف کے حصے پر پڑا، اور وہ اندر کی طرف جھکا۔

“بچاؤ!”
اس کی چیخ گونجی۔

سرمد نے جھٹ سے رسی کھینچی۔
مارٹن دوسری طرف سے کھنچاؤ دے رہا تھا۔
ہیوگو کی آدھی ٹانگ دراڑ میں جا چکی تھی، جسم ہوا میں جھول رہا تھا۔

رچرڈ آگے بڑھا، مگر گھبراہٹ میں پھسل گیا اور منہ کے بل برف میں گرا۔

آخرکار، چند لمحوں کی جدوجہد کے بعد، ہیوگو کو باہر نکالا گیا۔
وہ کانپ رہا تھا، چہرہ زرد اور زبان لڑکھڑا رہی تھی۔

“میں… میں مرنے والا تھا!”

کیمپ 1 قائم ہوتا ہے
اس واقعے کے بعد ماحول بدل چکا تھا۔
سب کے دلوں میں پہاڑ کے لیے عجیب سا احترام آ گیا تھا — ڈر جیسا احترام۔

۵۲۰۰ میٹر کی بلندی پر کیمپ ۱ قائم کیا گیا۔
دو چھوٹے خیمے — ایک رسد کے لیے، ایک آرام کے لیے۔
سرمد اور مارٹن ایک خیمے میں، باقی تین دوسرے میں۔

آکسیجن کی کمی اب شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔
چند افراد کو ہلکا سر درد، نیند میں خلل، اور سانس کی بے ترتیبی ہونے لگی۔

لارنس، جو میڈیکل ماہر تھا، سب کی حالت چیک کرتا جا رہا تھا۔
“یہ بلندی برداشت کرنے کا مرحلہ ہے۔ اگلے دو دن یہی رہیں گے۔”

رات — اور پہلا خواب

سرمد کو نیند نہیں آئی۔
نصف شب وہ خیمے سے باہر نکلا، اور راکا پوشی کی طرف دیکھا۔

پہاڑ کی سفید دیوار پر چاندنی کا عکس پڑا، اور لمحے بھر کو اسے لگا کہ کوئی وہاں کھڑا ہے —
ایک سایہ، مکمل خاموش، بغیر چہرے کے۔
پھر دھند چھا گئی، اور وہ نظارہ غائب ہو گیا۔

اسے اپنے والد کی آواز سنائی دی:

“راستہ وہاں ہے… جہاں روشنی ختم ہوتی ہے…”

اگلی صبح
ہیوگو نے مارٹن سے کہا:
“مجھے واپس جانا ہے۔ یہ پہاڑ میرے بس کا نہیں۔”

مارٹن نے سرد لہجے میں کہا:
“واپسی کا مطلب ہے باقی عمر پچھتاوا۔ سوچ لو۔”

سرمد خاموشی سے اپنا ہارنس پہن رہا تھا۔
آج وہ کیمپ ۲ کی ممکنہ جگہ دیکھنے نکلنے والا تھا — تنہا۔

آخری منظر:
سرمد برف پر قدم رکھتا ہے، رسی اپنے جسم سے باندھتا ہے، اور مڑ کر پہاڑ کی طرف دیکھتا ہے۔
پھر آہستگی سے کہتا ہے:

“میں آ رہا ہوں…”