قسط 9: فیصلہ، کشمکش، اور پہاڑ کی خاموش زبان

کیمپ 1 پر رات گزر چکی تھی، مگر صبح کی روشنی بےرنگ تھی۔
لارنس کی موت کے بعد خاموشی ہر چیز پر حاوی تھی — خیموں، برتنوں، سانسوں، اور نظروں پر۔

پہاڑ بدلا نہیں تھا —
وہ آج بھی ویسا ہی پرشکوہ، ویسا ہی بے رحم تھا۔

مگر انسانی دل بدل چکے تھے۔
🔹 کشمکش

خیمے کے اندر ہیوگو نے اچانک کہا:

“مجھے واپس جانا ہے۔”

رچرڈ نے سرد لہجے میں جواب دیا:

“یہی تو پہاڑ چاہتا ہے — ہم ڈر کر بھاگ جائیں۔”

مارٹن نے سرمد کی طرف دیکھا۔
“تمہارا کیا خیال ہے؟”

سرمد خاموش رہا۔
اس کی آنکھوں میں ایک روشنی تھی — یا شاید دھند۔
وہ راکا پوشی کو دیکھ رہا تھا جیسے کوئی سوال پوچھ رہا ہو۔

“یہ سفر ادھورا چھوڑنا میرے لیے ممکن نہیں،”
اس نے آہستہ کہا،
“مگر اب ہر قدم سوچ کر رکھنا ہوگا۔”
🔹 پہاڑ کی زبان

اس روز موسم بے حد خراب ہو گیا۔
برف باری نے ہر سمت چھپا دی۔
ریڈیو سے بیس کیمپ بھی رابطے میں نہیں رہا۔

کیمپ 1 میں قید چار لوگ —
خوف، موت، ہمت اور خاموشی کا سامنا کر رہے تھے۔

رات گئے سرمد خیمے سے نکلا۔

چاند نہیں تھا، بس برف کی سفید چادر۔

وہ تنہا پہاڑ کی طرف چل پڑا — شاید صرف چند قدم، یا شاید سو۔

پھر وہ رکا۔
ہوا میں کچھ تھا۔
ایک احساس۔ ایک “آواز” — جو سنی نہیں، محسوس کی جاتی ہے۔

“کیا تم میرے راز سنبھال سکو گے؟”

سرمد کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

“میں صرف سوال لایا ہوں، جواب نہیں۔”

ہوا چل رہی تھی، برف اڑ رہی تھی، مگر وقت جیسے تھم گیا تھا۔

پھر وہ واپس لوٹا۔ قدموں کے نشانات مٹ چکے تھے۔
🔹 صبح کا فیصلہ

اگلی صبح سب جمع ہوئے۔
مارٹن نے سوال کیا:

“واپسی یا چڑھائی؟”

ہیوگو بولا:
“واپسی۔”

رچرڈ بولا:
“میں چڑھوں گا۔”

مارٹن نے سرمد کی طرف دیکھا:

“تم؟”

سرمد نے آہستہ، صاف آواز میں کہا:

“میں چڑھنے آیا تھا — اور یہ سفر صرف میری ذات کا نہیں۔
میرے والد یہاں کھو گئے تھے۔
میرا ہر قدم ان کی تلاش ہے۔”

تین لوگ آگے بڑھنے کو تیار تھے۔