قسط نمبر تین: سایہ جو دیواروں سے گزرتا ہے

سایہ بالکل ہمارے سامنے، سرنگ کے موڑ پر لرز رہا تھا — جیسے روشنی کے ساتھ ناچ رہا ہو، مگر وہ روشنی تو صرف ہماری مشعل کی کمزور زرد روشنی تھی۔ وہ ساکت نہیں تھا، مگر صاف بھی نہ تھا۔ دھندلا، دھواں سا، مگر واضح اتنا کہ دل دھڑکنا بھول جائے۔

“کیا… کیا وہ کوئی جانور ہے؟” میں نے سرگوشی کی۔

پروفیسر نے کچھ نہ کہا۔ وہ بس آگے جھک کر اسے گھور رہے تھے، جیسے آنکھوں کے ذریعے اس کی ساخت، نوعیت اور نیت کو جانچنا چاہتے ہوں۔

پھر اچانک… وہ سایہ دیوار میں غائب ہو گیا۔

جیسے مائع ہو — دیوار نے اسے چوس لیا۔

پچھلے لمحے تک جو چیز ہمارے سامنے تھی، اب اس کا کوئی نشان نہ تھا۔

“یہ ممکن نہیں۔” میں نے کہا۔ “یہ نظر کا دھوکہ ہے… ہوگا نا؟”

“یہ وہ جگہ ہے جہاں سائنس اور وہم کا فاصلہ مٹنے لگتا ہے۔” پروفیسر نے نرمی سے جواب دیا۔ “اور یہی وہ مقام ہے جس کے لیے ہم نیچے اترے ہیں۔”

ہم نے وہاں رکنے کا فیصلہ کیا۔ مشعل ختم ہو رہی تھی، اور ہم میں سے کوئی بھی اس مقام سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھانا چاہتا تھا۔

ہنس خاموش بیٹھا رہا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک لفظ چپکا تھا: “واپس۔”

ہم سب نے وہ لفظ دل میں دہرایا — مگر ہم جانتے تھے کہ واپسی کا راستہ… اب محض ایک خواہش ہے۔


(فلیش بیک)
ہم نے سفر کا آغاز اس دن کیا جب آتش فشاں “سنیفیل” کے دہانے تک پہنچے۔ وہ جگہ سنسان تھی، برف سے ڈھکی ہوئی، اور ارد گرد کے پہاڑ خاموش نگران کی طرح کھڑے تھے۔

پروفیسر نے جیسے ہی مخصوص تاریخ پر سورج کی کرنوں کے زاویے سے دہانے پر نشان دیکھا، وہ پکار اٹھے، “یہی ہے! راستہ یہاں سے کھلتا ہے!”

ہم نیچے اترے — ایک عمودی سرنگ، جس کی گہرائی ماپی نہ جا سکتی تھی۔

ہمارے قدموں نے زمین کے رازوں کو جگایا تھا… اور شاید یہی ہماری سب سے بڑی غلطی تھی۔


ہم نے اگلی صبح وہ نشان دیکھا — جہاں سایہ غائب ہوا تھا، دیوار پر تین انگلیوں جیسے نشان تھے۔

لمبے، غیر انسانی… اور اندر کی طرف دھنسے ہوئے۔