زندہ ہے۔ اور وہ ہمیشہ ہر قدم کو یاد رکھتی ہے۔”
ہنس نے چونک کر کہا، “یہ کیسا استعارہ ہے؟ کیا وہ صرف زمین کی پرتوں کی بات کر رہا ہے… یا کچھ اور؟”
میں نے آہستہ سے کہا، “شاید وہ صرف اپنا خوف بیان کر رہا ہے — کوئی بھی انسان، جب اتنی گہرائی میں پہنچے، تو وہ تنہائی کو وجود سمجھنے لگتا ہے۔”
پروفیسر نے ایک اور صفحہ کھولا — یہ جرنل کا آخری نوٹ تھا:
“میں نیچے جا رہا ہوں۔ یہاں ایک قدرتی شافٹ ہے، جو کسی گہرے غار میں کھلتا ہے۔ اگر میں واپس نہ آ سکا، تو جان لو کہ انسان کی حد وہ نہیں جو نقشے پر لکھی گئی ہو، بلکہ وہ ہے جہاں اس کا ارادہ ہار مانتا ہے۔”
نیچے صرف ایک دستخط تھا:
“JG”
ہم تینوں خاموش بیٹھے تھے۔
پھر ہنس نے دھیرے سے پوچھا، “کیا وہ واپس آیا تھا؟”
پروفیسر نے سر ہلایا، “ریکارڈز میں اُس کے بارے میں آخری ذکر یہی ہے کہ وہ ایک فرانسیسی مہم کے ساتھ روانہ ہوا… اور کبھی واپس نہ آیا۔”
ہم نے اس جگہ پر رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ خیمہ پرانا ضرور تھا، مگر محفوظ۔
اندھیرے میں جب ہم لیٹے تو دل میں ایک ہی سوال گونجتا رہا:
“کیا ہم گوتیے کا انجام دہرا رہے ہیں؟ یا اس کا ادھورا کام مکمل کرنے جا رہے ہیں؟”
صبح ہم نے خیمے کے پیچھے ایک نیا راستہ تلاش کیا — ایک قدرتی شافٹ، شاید وہی جس کا ذکر گوتیے نے آخری نوٹ میں کیا تھا۔
اس میں رسہ باندھ کر نیچے جانا ممکن تھا۔
پروفیسر نے خاموشی سے کہا:
“ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا — یہی جگہ ہے جہاں سے واپسی بھی ممکن ہے، اور آگے بڑھنے کا دروازہ بھی یہی ہے۔”