قسط نمبر 12: نیچے ایک اور دنیا

ہم نے رسی مضبوطی سے جمی چٹان سے باندھی۔ پروفیسر نے سب سے پہلے نیچے جھانک کر گہرائی کا اندازہ لگانے کی کوشش کی، لیکن روشنی آگے جا کر جذب ہو جاتی تھی۔

“پچاس سے ساٹھ میٹر لگتے ہیں،” وہ بولے۔ “نرمی سے اترنا ہوگا، یہ دیوار کہیں کہیں گیلی بھی ہے۔”

میں نے آخری بار خیمے کی طرف دیکھا — وہ واحد انسانی شے جو اس خاموشی میں ہماری موجودگی کا گواہ تھی۔ پھر ہم نے نیچے اترنا شروع کیا۔


رسی کی گرفت تھامے، جب میں نیچے آ رہا تھا، تو پہلی بار زمین کی خاموشی میرے کانوں میں شور کی طرح گونج رہی تھی۔ دل کی دھڑکن، سانس کی آواز، رسی کی چرچراہٹ… سب کچھ بہت واضح ہو چکا تھا۔

پروفیسر نیچے پہنچ چکے تھے، میں بیچ میں تھا، اور ہنس اوپر۔ ہر قدم کے ساتھ چٹان کی نمی بڑھ رہی تھی۔

آخرکار ہم نیچے پہنچ گئے۔

اور پھر ہم نے دیکھا — ایک وسیع گہا (vaulted cavern)۔

اوپر گنبد نما چھت، جو قدرت نے خود تراشی تھی، اور نیچے… نمکین مٹی پر بنے قدرتی ستون، جو صدیوں سے زمین کا بوجھ سنبھالے کھڑے تھے۔

ہم خاموشی سے کچھ دیر تک صرف دیکھتے رہے۔

پھر پروفیسر نے دھیرے سے کہا، “ہم زمین کے مرکز کے بالکل قریب تو نہیں، لیکن جتنی گہرائی پر کوئی انسان فطری طور پر جا سکتا ہے… شاید ہم اس کے قریب ہیں۔”

ہنس نے آہستہ کہا، “یہ جگہ قبر کی طرح خاموش ہے…”

میں نے جواب دیا، “یا گواہی کی طرح — جیسے یہاں کوئی کہانی دبی ہوئی ہو۔”


ہم نے تھوڑا آگے جا کر دیواروں پر کچھ عجیب نشانات دیکھے۔

پتھروں پر سیدھی لکیریں، جیسے قدرتی دھاریں، مگر کچھ جگہوں پر یہ لائنیں دہرائی گئی تھیں… جیسے کسی نے ارادتاً انہیں اور واضح کیا ہو۔

پروفیسر نے چھو کر دیکھا۔ “یہ انسان کا ہاتھ لگتا ہے — پرانے آلے سے کُھرچی گئی لکیر۔”

ہمیں احساس ہوا — شاید گوتیے یہاں تک آیا تھا۔ شاید وہ یہاں کچھ ریکارڈ کرنا چاہتا تھا۔

پھر ایک جگہ ہمیں ایک ڈبہ نما چیز دکھائی دی — آدھی مٹی میں دبی ہوئی۔ ہم نے احتیاط سے اسے نکالا۔

یہ ایک لکڑی کا کیس تھا — اندر ایک پرانا کمپاس، اور کچھ صفحات جو شاید موم سے محفوظ کیے گئے تھے۔

ایک صفحہ پر صرف ایک جملہ:

“If this is the end, let it be known: I saw the earth breathe.”


پروفیسر نے وہ جملہ دہرایا — اور ہم تینوں پر کچھ لمحوں کے لیے سکتہ طاری ہو گیا۔

شاید یہی تھا وہ لمحہ، جب ہم سمجھ گئے کہ ہم ایک سائنسدان کی مہم مکمل نہیں کر رہے، بلکہ ایک انسان کے سوال کا جواب ڈھونڈ رہے ہیں۔

اور زمین کا سانس… واقعی سنائی دینے لگا تھا۔

دور، گہرائی میں، کہیں سے ایک ہلکی گونج اُٹھ رہی تھی — نہایت دھیمی، مسلسل، جیسے زمین میں کہیں پانی یا گیس حرکت میں ہو۔

یا شاید… وقت۔