وہ آواز مستقل آ رہی تھی — ایک نرم سی گونج، جیسے دور کہیں گہرائی میں کوئی دل دھڑک رہا ہو۔ یہ کوئی جانور نہیں، نہ ہی ہوا کی سادگی۔ یہ… کچھ اور تھا۔
پروفیسر نے آلہ نکالا — ایک سادہ ساؤنڈ ڈیٹیکٹر۔ انہوں نے اسے زمین سے لگایا۔ کچھ دیر بعد اس کی سوئی معمول سے ہٹ کر ہلنے لگی۔
“یہ قدرتی شور ہے،” وہ بولے۔ “ممکن ہے کوئی زیرِ زمینی دریا یا لاوا چینبر ہو… مگر یہ تسلسل… غیر معمولی ہے۔”
ہم نے اپنے بیگ ہلکے کیے، صرف ضروری سامان ساتھ رکھا اور آواز کی سمت چلنا شروع کیا۔
تقریباً بیس منٹ بعد سرنگ مزید تنگ ہو گئی۔ یہاں دیواریں گرم تھیں، اور نمی بڑھتی جا رہی تھی۔ زمین پر چمکتی تہیں ظاہر کر رہی تھیں کہ یہاں کسی زمانے میں معدنی بخارات جمتے رہے ہیں۔
پھر اچانک، ایک موڑ کے بعد ہم رک گئے۔
ہمارے سامنے ایک قدرتی گول چیمبر تھا، جس کے درمیان میں زمین ذرا نیچی تھی — جیسے کوئی قدرتی پیالہ۔ اس کے بیچ میں ایک تلچھٹ تھی، جو ہلکی ہلکی لرز رہی تھی۔
جی ہاں… زمین خود تھوڑا تھوڑا سانس لے رہی تھی۔
ہم دم بخود تھے۔
پروفیسر نے کہا، “یہ حرارت کے دباؤ سے پیدا ہونے والی حرکت ہے۔ لیکن یہاں یہ اتنی متوازن ہے کہ گویا کوئی زندہ شے یہ سب چلا رہی ہو۔”
میں نے خاموشی سے زمین پر ہاتھ رکھا — وہ تھوڑی نم، تھوڑی گرم، اور تھوڑی جیتے جی محسوس ہو رہی تھی۔
ہنس پہلی بار کچھ بولے بغیر زمین پر بیٹھ گیا۔ ان کے چہرے پر وہ حیرت تھی جو انسان کو کسی مافوق الفہم چیز کے سامنے آتی ہے — بغیر مذہب، بغیر منطق… صرف خاموش قبولیت۔
ہمیں احساس ہوا کہ شاید گوتیے بھی یہیں تک آیا ہو گا۔ شاید یہی اس کی تلاش تھی — زمین کا وہ مقام جہاں خاموشی اتنی مکمل ہو جائے کہ وہ بولنے لگے۔
پروفیسر نے آہستہ سے کہا،
“یہ وہ جگہ ہے… جہاں واپس پلٹنا ممکن ہے، مگر دل نہیں چاہتا۔”
میں نے ہلکی آواز میں کہا،
“یا شاید یہی وہ مقام ہے… جہاں سے سفر اصل میں شروع ہوتا ہے۔”
ہم نے فیصلہ کیا — اس مقام پر کچھ دن رکنا چاہیے۔ معائنہ کرنا، ماحول نوٹ کرنا، اور پھر واپسی کا سوچنا۔
لیکن ایک بات طے ہو چکی تھی:
ہم اب وہ لوگ نہیں رہے تھے جو زمین کی سطح سے اترے تھے۔