قسط نمبر 14: ان دیکھا اشارہ

اس زیرِ زمین چیمبر میں وقت کا احساس ختم ہو چکا تھا۔ گھڑی صرف نمبر دکھا رہی تھی، دن اور رات کا کوئی فرق باقی نہیں رہا تھا۔

ہم نے خیمہ وہیں لگایا، اور کچھ وقت اس مقام کا مشاہدہ کرنے میں گزارا۔ پروفیسر نے آلات ترتیب دیے:

  • ایک درجہ حرارت پیما
  • نمی ناپنے والا آلہ
  • اور زمین کے اندر کی لہریں ریکارڈ کرنے والا پرانا سائزمومیٹر

ہر آلہ ایک ہی بات کہہ رہا تھا:
یہ جگہ زمین کی باقی تمام تہوں سے الگ ہے — مستحکم، مگر زندہ۔

پھر ایک شام، جب ہم اپنے نوٹس تیار کر رہے تھے، ہنس نے زمین کے ایک کونے پر کچھ عجیب سا دیکھا۔

وہ ایک ہموار چٹان تھی، جیسے کسی نے اسے جان بوجھ کر چمکا دیا ہو۔ مگر اصل حیرت اس پر بنے نقش پر تھی۔

ایک گول دائرہ — اور اس کے اندر تین متوازی لائنیں۔

پروفیسر نے دیکھا، اور وہ فوراً سنجیدہ ہو گئے۔

“یہ قدرتی نشان نہیں لگتا۔ یہ کوئی علامت ہے — کسی قدیم تہذیب کی، یا شاید کسی مہم جو کی۔”

ہم نے اردگرد اور بھی چٹانیں کھنگالیں۔ کچھ دیر بعد، ایک اور نشان ملا — اس بار ایک نقشہ نما خاکہ، جو شاید اس چیمبر کے پیچھے موجود کسی اور دائرے یا سرنگ کی نشاندہی کر رہا تھا۔

پروفیسر کے چہرے پر ایک خاموش جوش ابھرا۔
“گوتیے یہاں آیا تھا، اور شاید وہ سمجھا تھا کہ یہ جگہ کسی اور بڑی شے کا دروازہ ہے۔”

میں نے آہستہ سے کہا، “اور وہ شاید اس دروازے کے اندر گیا بھی ہو…”


ہم نے اگلی صبح وہ سمت چنی، جس طرف خاکے میں دائرہ بنا تھا۔ وہاں واقعی ایک چھوٹی سی دراڑ تھی — اتنی چھوٹی کہ آنکھ سے چھپ جائے، مگر اندر جانے کا راستہ دے۔

ہم نے ہتھوڑے سے تھوڑا سا پتھر ہٹایا، اور ایک تنگ سرنگ کھل گئی۔

اندر سے ٹھنڈی ہوا آئی — لیکن وہ نمی والی خنکی نہیں، بلکہ ایک صاف اور ساکن ہوا… جیسے کوئی بند جگہ صدیوں سے سانس روکے بیٹھی ہو۔

پروفیسر نے کہا، “یہاں کچھ ہے۔ شاید گوتیے کا آخری قدم… یا زمین کا چھپا ہوا چہرہ۔”


ہم نے رسیاں، آکسیجن ماسک، اور روشنی کے اضافی ذرائع ساتھ لیے۔

دروازہ کھل چکا تھا۔

اور شاید وہ صرف چٹانوں کا نہیں، وقت کا بھی دروازہ تھا۔