قسط نمبر 15: پتھروں میں بند وقت

ہم نے مشعلیں سنبھالیں، آکسیجن ماسک پہنے، اور احتیاط سے سرنگ میں داخل ہو گئے۔ یہ راستہ اتنا تنگ تھا کہ ہمیں ایک وقت میں صرف ایک شخص ہی گزر سکتا تھا — پہلے پروفیسر، پھر میں، اور آخر میں ہنس۔

چند میٹر کے بعد سرنگ قدرے پھیل گئی، مگر چھت اتنی نیچی تھی کہ ہمیں جھک کر چلنا پڑا۔

اندر کا ماحول بالکل مختلف تھا۔

نہ نمی، نہ بھاپ، نہ گیس —
بلکہ خالص سناٹا۔

جیسے یہاں آواز کا بھی داخلہ بند ہو۔

پھر کچھ آگے جا کر، اچانک روشنی ہماری مشعلوں سے منعکس ہونے لگی — سامنے کی دیواروں پر چمکتی سطحیں تھیں۔ شیشے کی طرح صاف، مگر پتھروں سے بنی ہوئی۔ جیسے کوئی قدرتی کرسٹل یہاں جم گیا ہو۔

پروفیسر نے آہستہ سے انگلی پھیری — وہ سطح ٹھنڈی تھی۔

“یہ شاید ‘اوبسڈیئن’ ہے — آتش فشانی شیشہ، جو انتہائی دباؤ پر بنتا ہے۔ مگر اس سطح پر ایک عجیب چیز ہے…”

ہم نے قریب ہو کر دیکھا —
کرسٹل کے اندر جیسے کوئی سایہ قید ہو۔

نقش نہیں، تصویر نہیں — بس ایک دھندلا سا خدوخال، جیسے کسی انسان کا دھواں زمین نے اندر جذب کر لیا ہو۔

ہنس پیچھے ہٹ گیا۔
“یہ… یہ کیا ہے؟”

پروفیسر نے سر ہلایا، “میں نہیں جانتا۔ مگر اگر گوتیے یہاں آیا تھا، تو شاید… یہ اُس کے قدموں کا اثر ہے۔”


سرنگ آگے جا کر ایک بڑی گول غار میں کھلتی تھی۔

یہ غار باقی سب سے مختلف تھی۔

دیواریں مکمل ہموار، گہرے نیلے رنگ کی — اور بیچ میں ایک چٹان، جس پر ایک لکڑی کی چیز رکھی ہوئی تھی۔

ہم تینوں بے اختیار اس کے قریب ہوئے۔

یہ ایک پرانا جرنل تھا — گندمی رنگ، لیکن سوکھا ہوا، جیسے اسے کسی نے جان بوجھ کر خشک رکھا ہو۔

پہلا صفحہ:

“Jacques Gauthier — Final Record”

اور پھر ایک جملہ:

“I was wrong. This is not the center of the earth. This is the edge of something older.”

پروفیسر نے دھیرے سے جرنل بند کر دیا۔
ہم تینوں خاموش۔

شاید گوتیے کو جو ملا… وہ صرف زمین کی گہرائی نہیں، بلکہ کچھ ایسا تھا جو زمین سے بھی پہلے یہاں تھا۔


ہم نے غار کے بیچ میں بیٹھ کر سانس بحال کی۔
مشعلیں ہلکی پڑنے لگی تھیں، لیکن دل میں روشنی بڑھ رہی تھی۔

ہمیں معلوم ہو چکا تھا:
ہم زمین کے مرکز کے متلاشی نہیں تھے…
ہم زمین کے حافظے تک پہنچ چکے تھے۔