قسط نمبر 16: گوتیے کی گواہی

ہم نے جرنل کی اگلی ورق گردانی شروع کی۔

کاغذوں پر تحریر اب بھی صاف تھی — شاید زمین کی خاص نمی، درجہ حرارت، اور بند فضا نے اسے بچا لیا تھا۔

پروفیسر نے پڑھنا شروع کیا:

“میں نے سفر کا آغاز سچ کی تلاش میں کیا تھا — مگر اب میں جان چکا ہوں کہ سچ ایک رُخ نہیں، ایک دائرہ ہے۔”

“یہ جگہ زمین کے اندر نہیں، اس کے نیچے بھی نہیں… یہ شاید ایک دوسری تہذیب کا اثر ہے۔ کوئی ایسی تہذیب جو ہم سے پہلے زمین کی گہرائی میں جی چکی ہے… یا اب بھی زندہ ہے، مگر کسی اور شکل میں۔”

ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ یہ دعویٰ غیر معمولی تھا — بلکہ ناقابلِ یقین۔

مگر پھر، جرنل کی اگلی تحریر نے سب کچھ بدل دیا۔

“مجھے دیواروں پر تصویری زبان ملی ہے۔ یہ الفاظ نہیں، مگر اظہار ہے۔ ایک دائرہ، تین لکیرے… شاید ‘رابطہ’، یا ‘دروازہ’ کا نشان۔”

“میں نے آوازیں سنی ہیں — بغیر کسی منبع کے۔ جیسے میرے دماغ میں کوئی پیغام بھیج رہا ہو۔ وہ خطرناک نہیں لگیں، بس بہت پرانی۔ بہت تھکی ہوئی آوازیں۔”

پروفیسر آہستہ سے بولے، “یہ سب کونشیس رابطے کی بات کر رہا ہے… یعنی ایسی فریکوئنسی، جو صرف ذہن محسوس کرے۔”

میں نے آہستہ سے کہا، “اور اگر یہ سچ ہو… تو زمین کے اندر کوئی ذہن ہے؟”


پھر جرنل کا آخری صفحہ — وہ سب سے ہولناک اور پرکشش تھا۔

“میں واپس جا سکتا ہوں۔ میرے پاس سامان ہے، نقشہ ہے، لیکن میرا دل اب اس طرف نہیں۔”

“یہ جگہ خاموش ہے، لیکن خالی نہیں۔ میں محسوس کرتا ہوں جیسے مجھے یہاں ہونا چاہیے تھا — جیسے یہ جگہ مجھے پکار رہی تھی… برسوں سے۔”

“اگر کوئی یہ جرنل پڑھے، تو جان لے: میں مرنے نہیں آیا تھا، بلکہ ایک بننے آیا تھا۔”

پروفیسر کی آواز لرز گئی۔
“اس نے خود کو زمین کی اس تہہ کا حصہ مان لیا…”

ہنس نے آہستہ سے کہا،
“یا شاید… وہ یہی چاہتا تھا کہ ہم بھی اُسے یہاں پائیں، اور اُسی مقام سے سفر جاری رکھیں۔”


ہم نے جرنل واپس چٹان پر رکھا — جیسے کوئی امانت واپس رکھی جاتی ہے۔

اور تب ہمیں پتھروں پر وہی نشان دوبارہ دکھائی دیا —
دائرہ… اور تین لکیرے۔

اب کی بار، وہ روشنی میں ہلکا سا چمک رہا تھا۔

جیسے زمین ہمیں دیکھ رہی ہو… اور ہمیں دعوت دے رہی ہو…