قسط نمبر 17: دروازے کے پیچھے کچھ نہیں… یا سب کچھ؟

ہم نے چٹان پر موجود نشان کے پیچھے دیوار کو پرکھا۔ پروفیسر نے ہتھوڑے سے آہستہ آہستہ دستک دی — کہیں کہیں وہ کھوکھلی سی لگی۔

یہ قدرتی تہہ نہیں تھی —
یہ شاید کسی وقت دباؤ یا حرارت سے الگ ہو چکی پرت تھی، جو اندر کسی غار یا خالی جگہ کو چھپا رہی تھی۔

ہم نے احتیاط سے دیوار کے کنارے کھودنا شروع کیا — کچھ دیر بعد پتھر ہٹنے لگا۔

پھر ایک خالی جگہ نظر آئی — بالکل سادہ، کسی دروازے کی شکل کا کٹاؤ۔

ہم نے اندر جھانکا۔

ایک اور غار… لیکن یہ باقی سب سے زیادہ سادہ تھی۔

نہ چمکدار کرسٹل، نہ گہرے نشانات، نہ دراڑیں… صرف سادہ، تھوڑی مٹیالی دیواریں، اور درمیان میں پتھریلا فرش۔

ہنس آہستہ سے بولا، “یہ کوئی خاص جگہ نہیں لگتی…”

پروفیسر نے روشنی اونچی کی، اور کہا:

“ہو سکتا ہے یہی اصل مقام ہو — جہاں زمین خاموشی سے اپنی پرانی پرتیں بدلتی ہے۔ یہاں شاید کچھ نہیں، لیکن یہی ‘کچھ نہ ہونا’… سب کچھ ہو سکتا ہے۔”

میں نے جھک کر زمین پر ہاتھ پھیرا — مٹی قدرے نرم تھی، شاید کسی وقت یہاں پانی رہا ہو۔


ہم نے اس مقام پر آدھا دن گزارا، مشاہدہ، درجہ حرارت، نمی، اور معدنیات کے نمونے جمع کیے۔ کچھ خاص دریافت نہیں ہوئی —
لیکن ایک چیز ہم سب نے محسوس کی:

یہاں آ کر ذہن پرسکون ہو جاتا ہے۔

شاید اس لیے کہ یہاں شور نہیں، روشنی نہیں، وقت کا احساس نہیں —
یا شاید اس لیے کہ انسان کو جب کسی حد پر پہنچا دیا جائے، تو وہ خود ہی ٹھہر جاتا ہے۔

پروفیسر نے آہستہ سے کہا:

“ہمیں واپس جانا چاہیے… کیونکہ ہم نے جو پانا تھا، پا لیا ہے — نہ صرف زمین سے، بلکہ خود سے۔”


ہم نے تمام آلات سمیٹے، جرنل کی ایک نقل اپنے ساتھ لی، اور واپس جانے کی تیاری شروع کی۔

واپسی کا راستہ مشکل ضرور تھا، مگر دل میں سکون تھا۔

کیونکہ اس سفر نے ہمیں یہ سکھایا کہ:

زمین کے مرکز کی تلاش، دراصل انسان کے صبر، ارادے، اور حقیقت کی تسلیم کا سفر ہے۔