قسط نمبر 18: واپسی کا وہم

ہم نے فیصلہ تو کر لیا تھا کہ واپس جانا ہے…
مگر فیصلہ کرنا اور راستہ پا لینا، یہ دو مختلف باتیں ہیں۔

جیسے ہی ہم نے سامان باندھ کر پہلی سرنگ کی طرف رخ کیا، تو ہمیں ایک عجیب احساس ہوا:
راستے کی ہمواری، ترتیب، ہوا کی سمت — کچھ بھی ویسا نہیں لگ رہا تھا جیسا آتے وقت تھا۔

پروفیسر نے رک کر نقشہ نکالا — ہم نے جو راستے بنائے تھے، ان میں کچھ اوورلیپ نظر آئے۔

“یہ کیسے ہو سکتا ہے؟” میں نے کہا۔ “ہم نے باقاعدہ راستہ ٹریک کیا تھا…”

ہنس آہستہ سے بولا، “شاید زمین کی حرکت… یا ہماری یادداشت دھوکہ دے رہی ہے۔”

پروفیسر نے سنجیدگی سے کہا:
“نہیں، یہ سادہ بھول نہیں — ہم اتنی گہرائی میں ہیں کہ زمین کی پرتیں خود تھوڑی تھوڑی بدل سکتی ہیں۔ یہاں چٹانوں کی ہلکی حرکت بھی کسی سرنگ کو بند، موڑ، یا چھپا سکتی ہے۔”

ہم نے چند متبادل راستے آزمائے — دو بند تھے، ایک انتہائی تنگ ہو چکا تھا۔

چوتھا راستہ وہی تھا جسے ہم نے کبھی غیر اہم سمجھ کر چھوڑ دیا تھا — اب وہی ہماری واحد امید بن گیا۔


ہم نے اس غیر نشان زدہ سرنگ میں قدم رکھا۔
یہ آہستہ آہستہ اوپر جا رہی تھی، لیکن اندر کا ماحول پہلے سے مختلف تھا۔

دیواروں پر نمی بڑھ گئی تھی، مٹی نرم تھی، اور مشعل کی روشنی میں ذرات زیادہ جھلملاتے تھے — شاید یہ حصہ قدرتی طور پر زیادہ غیر مستحکم تھا۔

پھر ایک مقام پر رسی پھسل گئی — اور ہنس تھوڑا نیچے لڑھک گیا۔

ہم نے جلدی سے اُسے سنبھالا، مگر اس واقعے نے ہم سب کو اندر سے چوکنا کر دیا۔

پروفیسر نے دھیرے سے کہا،
“یہ راستہ جسمانی طور پر ممکن ہے، مگر ہمیں ہر قدم پر اپنا دماغ حاضر رکھنا ہوگا۔”


دو دن لگے — ہر قدم پر مشاہدہ، ہر موڑ پر شک۔

ہم نے پانی کی مقدار کم ہوتے دیکھی، بیٹریوں کو احتیاط سے استعمال کیا، اور زمین کی گہرائی کو ایک نیا رخ دیتے ہوئے سطح کی روشنی کی تلاش جاری رکھی۔

پھر… تیسرے دن کی شام کو، ہمیں ایک سرنگ کے آخری موڑ پر ہوا کی تازگی محسوس ہوئی۔

ہوا جو بھاپ سے خالی، اور نمی سے ہٹ کر… زمین کی سطح کی طرف آنے والی معلوم ہوتی تھی۔

پروفیسر نے خاموشی سے کہا،
“شاید… ہم بچ گئے ہیں۔”

ہم نے آخری زور لگا کر وہ سرنگ عبور کی — اور پھر ایک بلند و بالا غار کے دہانے پر پہنچ گئے، جہاں سے آسمان کی مدھم نیلاہٹ جھلک رہی تھی۔

یہ مکمل روشنی نہیں تھی…
مگر اتنی ضرور تھی کہ امید پیدا ہو جائے۔