وہ سرنگ، جس کے آخری سرے سے نیلاہٹ جھانک رہی تھی، پہلے تو خوش آئند لگی — لیکن جیسے جیسے ہم آگے بڑھے، پتہ چلا کہ یہ چٹانی چڑھائی ہے… تقریباً عمودی۔
ہمیں ہاتھوں اور پیروں کے سہارے پتھریلی دیوار چڑھنا پڑی۔ رسیاں کم تھیں، کیلیں محدود، اور جسم کمزور۔
ہنس نے پہلا قدم رکھا — پتھر پھسل گیا، لیکن وہ سنبھل گیا۔
پھر پروفیسر، اور آخر میں میں —
ہم ہر قدم پر توازن اور یقین کے درمیان جھول رہے تھے۔
کئی گھنٹے بعد، ہمیں ایک قدرتی چوٹی ملی — وہاں سے تازہ ہوا کا جھونکا صاف محسوس ہوا۔ لیکن ابھی مکمل آزادی نہیں ملی تھی۔
اوپر صرف ایک چٹانی درز تھی — بہت تنگ، لیکن روشنی اس کے پار تھی۔
پروفیسر نے کہا، “اگر ہم یہاں سے خود کو دھکیل لیں… تو شاید اوپر نکل آئیں۔”
یہ وہ لمحہ تھا جسے آخری کوشش کہا جاتا ہے — جہاں نہ ہارنے کی گنجائش ہے، نہ واپس جانے کی۔
ہم نے بیگ نیچے چھوڑ دیے — صرف جرنل، نوٹس، اور کچھ نمونے سنبھالے۔
پھر باری باری اُس درز میں گھسے —
ایک قدم، ایک کہنی، ایک دھکا…
اور پھر —
اچانک، روشنی۔
ہم زمین کی سطح پر آ گئے تھے۔
لیکن کہاں؟
اوپر دھند چھائی ہوئی تھی۔ ہوا میں پہاڑوں کی خوشبو تھی۔ آس پاس خشک جھاڑیاں، کچھ ٹھنڈی چٹانیں، اور دور پہاڑی سلسلے نظر آ رہے تھے۔
ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم شاید اپنے اصل داخلی مقام سے میلوں دور نکل آئے ہیں —
لیکن اس وقت صرف زندہ ہونا کافی تھا۔
ہم بیٹھ گئے۔ خاموشی سے۔
تین انسان، جنہوں نے زمین کے اندر وہ کچھ دیکھا جو شاید کسی نے نہ دیکھا ہو —
لیکن اب ہمیں صرف ایک چیز کی ضرورت تھی:
رابطہ۔
ہم نے پروفیسر کے GPS ٹریکر کو چیک کیا —
سگنل بہت کمزور تھا… مگر تھا۔
وہ بولے، “ہمیں صرف کچھ وقت دینا ہوگا… پھر کوئی ریسکیو ٹیم، یا قریبی مہم جو ہمیں پکڑ لے گا۔”
میں نے آسمان کی طرف دیکھا — وہ آسمان جو اب بہت مختلف لگ رہا تھا۔
کھلا، مگر دور۔
آزاد، مگر بے نیاز۔
اس لمحے ہمیں یہ احساس ہوا:
زمین کے مرکز تک جانا شاید ایک سائنسی کارنامہ ہو —
لیکن واپس آ جانا… یہ زندگی کا سب سے بڑا انعام ہے۔