قسط 4: “اجنبی ستارے کے سائے میں

خلا میں تنہائی نہیں

رائلان اب خود کو سنبھال چکا تھا۔

کمپیوٹر کنسول پر جھکا، اس نے سسٹمز چیک کیے:

“کرافٹ اسٹیبل۔ آربیٹل لوکیشن کنفرمڈ۔ اسٹار آئیڈنٹیفائیڈ: تاؤ سیٹی”

“تاؤ سیٹی۔۔۔ میں پہنچ چکا ہوں!”

وہ بے اختیار سیٹ سے اٹھا۔
جھٹکے سے خلا میں تیرتا گیا — کششِ ثقل نہیں تھی۔

لیکن فوراً ہی ہاتھ سے ایک ہینڈل پکڑ لیا، اور خود کو واپس کھینچا۔
🧭 مشن کی حقیقت واضح

“یہی وہ ستارہ ہے جہاں ایسٹرولائفورم ناکام ہے۔ یہاں کچھ ہے — کوئی راز — جو زمین کو بچا سکتا ہے۔”

رائلان نے بائیں اسکرین پر ایک خاکہ دیکھا —
تاؤ سیٹی کے گرد سیارے — اور ان میں سے ایک پر خاص نشان:

"IRIDIA"
(ایک مصنوعی نام، اس سیارے کے لیے جس کے مدار میں وہ موجود تھا)

🛰 اجنبی جہاز کی موجودگی؟

تبھی۔۔۔ ایک الارم بجا:

“غیر متوقع ماس ڈیٹیکٹڈ۔ 2 کلومیٹر دور۔”

“کیا مطلب؟!”

رائلان نے سامنے کی سکرین کو زوم کیا۔

ایک شے۔۔۔
ایک سیاہ، انڈے جیسا ڈھانچہ خلا میں معلق تھا۔

کوئی شناخت نہیں، کوئی پرچم نہیں، کوئی سگنل نہیں۔

“یہ۔۔۔ کوئی انسانوں کا جہاز نہیں لگتا۔۔۔”

دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
رائلان کی سانسیں رکنے لگیں۔
🛸 خلائی مخلوق؟ پہلا امکان

اس نے دل میں سوچا:

“کیا یہ بھی میری طرح یہاں آیا ہے؟ کیا وہ بھی ایسٹرولائفورم کا شکار ہے؟”

جہاز کی ساخت گول تھی، ایک طرف سے جھلملاتی روشنی پھوٹ رہی تھی، جو فزکس کے کسی معلوم اصول کے خلاف لگ رہی تھی۔

“یہ قدرتی چیز نہیں۔۔۔ یہ کسی ذہین مخلوق کا بنایا ہوا ہے۔۔۔”
📡 پیغام رسانی کی کوشش

رائلان نے جہاز سے ایک عمومی سگنل بھیجا:

“ہیلو؟ کیا کوئی وہاں ہے؟”

کوئی جواب نہیں آیا۔

پھر اس نے ایک اور طریقہ آزمایا — روشنی کی فریکوئنسی سے Morse Code بھیجی:

“پرامن ہوں۔ تعاون چاہتا ہوں۔”

اور تبھی۔۔۔
اس دوسرے جہاز سے بھی روشنی جھلملائی۔

“ردعمل۔۔۔!”
🧬 ایک اور باشعور مخلوق؟

رائلان کا دماغ اب مکمل طور پر متحرک تھا۔

“اگر وہ مخلوق میری طرح یہاں حل ڈھونڈنے آئی ہے۔۔۔ تو شاید ہم اکٹھے کچھ کر سکتے ہیں۔”

لیکن دل میں ایک خوف بھی تھا:

“اگر وہ دشمن ہے؟ اگر اس کے اصول ہم سے مختلف ہیں؟ اگر یہ میری تباہی کے لیے آیا ہے؟”
🔒 ایک قدم پیچھے

رائلان نے جہاز کو Deflection Mode میں رکھا — یعنی:

نہ بالکل قریب جائے، نہ بالکل الگ رہے۔
صرف مشاہدہ کرے، جواب دے، مگر خود کو نہ کھولے۔

🔭 مشاہدہ جاری

وہ روزانہ سگنلز بھیجتا رہا۔
دوسرا جہاز بھی مخصوص ردعمل دیتا رہا۔

پھر ایک دن وہ لمحہ آیا:

“دوسرا جہاز آگے بڑھنے لگا۔۔۔ میری سمت۔۔۔”