گاڑی کی کھڑکیوں پر کالے شیشے تھے، اندر اندھیرا سا محسوس ہو رہا تھا۔ سلیم کو پچھلی سیٹ پر بیچ میں بٹھایا گیا تھا، دونوں طرف نقاب پوش افراد بندوق تھامے بیٹھے تھے۔ گاڑی کے انجن کی آواز، سلیم کے دل کی دھڑکن سے بھی زیادہ تیز لگ رہی تھی۔
وہ خوف سے چپ بیٹھا تھا، نظریں نیچی، پسینے سے شرابور۔ نہ سمجھ آ رہا تھا کہ دعا پڑھے، یا بھاگنے کا منصوبہ سوچے۔
اچانک سامنے والے نقاب پوش نے کہا:
“اس لڑکے نے ہمیں پہچان لیا ہے۔ اس کا چہرہ سب کچھ بتا رہا ہے۔ اگر چھوڑ دیا تو کل پکڑے جائیں گے۔”
دوسرے نے جواب دیا:
“اسے ساتھ رکھنا بہتر ہے۔ جیسے ہی کام ختم ہو، ختم بھی کر دیں گے۔”
یہ سن کر سلیم کی ریڑھ کی ہڈی میں جیسے برف بھر گئی ہو۔ وہ بے آواز رونے لگا۔ اس نے دل میں اللہ کو پکارا:
“یا اللہ! مجھے بچا لے۔ میں نے کچھ نہیں کیا۔ صرف رقم لینے گیا تھا۔”
گاڑی شہر سے باہر کی طرف نکل چکی تھی۔ گلیاں، عمارتیں اور شور پیچھے رہ گیا تھا۔ اب سنسان سڑکیں تھیں، جھاڑیاں، اور گرد آلود ہوا۔
پندرہ منٹ بعد گاڑی ایک ٹوٹے پھوٹے گیراج نما عمارت کے سامنے رکی۔ دروازہ لوہے کا تھا اور زنگ آلود۔ ایک ڈاکو نیچے اترا اور زنجیر سے بند دروازہ کھولا۔ سب نے جلدی جلدی سلیم کو دھکیلتے ہوئے اندر داخل کیا۔
اندر اندھیرا تھا، صرف ایک بلب لٹک رہا تھا جو بار بار جھپک رہا تھا۔ دیواروں پر پرانے کیلنڈر، اخباریں اور کچھ جلے ہوئے کاغذ چپکے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں تین چار خالی کرسیاں اور ایک لکڑی کی میز پڑی تھی۔
“اسے اُس کمرے میں بند کر دو۔ اور ہاں، رسی سے باندھ دو۔” ایک نے کہا۔
سلیم کو ایک چھوٹے کمرے میں لے جا کر فرش پر بٹھایا گیا۔ اس کے ہاتھ ایک پرانی رسی سے پیچھے باندھ دیے گئے۔
دروازہ بند ہوا اور باہر سے تالا لگا دیا گیا۔
سلیم اکیلا رہ گیا۔
کمرے میں نمی اور پرانی دیواروں کی بو تھی۔ چھت پر پنکھا نہیں تھا۔ وہ بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ کبھی دیوار کو دیکھتا، کبھی خود سے سوال کرتا:
“میں یہاں کیسے آ گیا؟ بس رقم لینے گیا تھا… بس کچھ ہزار روپے…”
دیوار کی دراڑوں سے روشنی کی لکیریں اندر آ رہی تھیں۔ اچانک اسے باہر سے آوازیں سنائی دیں۔
“پولیس نے الارم پر ری ایکشن کیا ہوگا؟”
“فکر نہ کرو۔ ہم نے کیمرے بھی توڑ دیے تھے۔ کوئی ثبوت نہیں۔”
سلیم یہ سنتے ہی چونک گیا۔
“اگر یہ کیمرے توڑ چکے ہیں، تو شاید ان کے چہروں کی ویڈیو نہیں بچی۔ اس کا مطلب ہے، میں ہی واحد گواہ ہوں!”
یہ سوچ کر اس کے جسم میں ہلکی سی کپکپی دوڑ گئی۔
مگر ایک چھوٹی سی چنگاری اندر جاگ چکی تھی — زندہ بچنے کی، اور ان کے خلاف گواہی دینے کی۔
سلیم نے رسی کو کھینچنے کی کوشش کی۔ رسی پرانی تھی مگر مضبوط۔
“مجھے یہاں سے نکلنا ہوگا، کسی بھی قیمت پر۔”
باہر ڈاکو قہقہے لگا رہے تھے، مگر سلیم کے اندر صرف ایک ہی آواز گونج رہی تھی:
“یا اللہ! مجھے بچا لے…”