سلیم کی انگلیاں خون آلود ہو چکی تھیں۔ رسی کے تانے بانے میں چھپے زنگ آلود کیل سے رگڑتے رگڑتے اب درد برداشت سے باہر ہو رہا تھا، مگر اُس کا ارادہ اٹل تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر آج وہ ہار گیا، تو کل کا سورج شاید نہ دیکھ سکے۔
بالآخر ایک جھٹکے کے ساتھ رسی کمزور ہوئی، اور سلیم نے خود کو جھٹکے سے آزاد کر لیا۔ ہاتھ سوجے ہوئے تھے، مگر وہ ہلانے جلانے کے قابل ہو چکے تھے۔
اس نے جلدی سے کمرے کی چھت، دیواروں، اور کونوں کا جائزہ لیا۔ کھڑکی بہت چھوٹی تھی، مگر شاید ایک انسان وہاں سے نکل سکتا تھا… اگر وہ زیادہ موٹا نہ ہو۔
اس کے دل میں ایک خیال آیا:
“یہ موقع شاید دوبارہ نہ ملے۔”
کمرے کے ایک کونے میں پرانا ٹیپ ریکارڈر پڑا تھا۔ سلیم نے اسے اٹھایا۔ بیٹری لگی ہوئی تھی — شاید اللہ کی طرف سے مدد۔
وہ دروازے کے قریب دبک کر بیٹھ گیا۔ باہر دو ڈاکو زور زور سے باتیں کر رہے تھے:
“پولیس تو اب تک الجھی ہوئی ہو گی۔ ہم جو لُوٹے، وہ صاف بچ نکلے گا۔”
سلیم نے ریکارڈر کا بٹن دبایا۔ آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ وہ تقریباً دو منٹ تک ان کی گفتگو ریکارڈ کرتا رہا، یہاں تک کہ ایک نقاب پوش کی آواز آئی:
“اب چلتے ہیں۔ رات اندھیری ہے، کام آسان ہو گا۔”
سلیم نے فوراً ریکارڈر بند کیا اور اُسے اپنی قمیض کے اندر چھپا لیا۔ وہ کھڑکی کے قریب گیا، پاؤں رکھ کر چڑھنے کی کوشش کی، لیکن شور ہوا تو خطرہ تھا۔
اس نے جوتے اتارے، آہستہ سے دیوار کا سہارا لیا، اور کھڑکی تک پہنچ گیا۔ لکڑی کی پرانی جالی کو آہستہ آہستہ کھینچا۔ جالی چرچرائی، مگر ٹوٹی نہیں۔
“یا اللہ، میری مدد فرما!” وہ دل میں بار بار دہرا رہا تھا۔
آخری ہمت لگا کر اس نے جالی کو کھینچا — چٹاخ!
آواز ہو گئی۔
اچانک ایک قدموں کی چاپ تیز ہوئی۔
“کون ہے؟ اندر کوئی حرکت ہوئی؟”
سلیم نے ایک لمحے کی بھی دیر نہ کی۔ وہ کھڑکی سے نکلنے کی کوشش میں پھنس گیا۔ کندھا باہر نکل آیا، لیکن کمر اٹک گئی۔
دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی۔
“دروازہ کھولو! تم بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے؟”
سلیم نے آخری زور لگایا — اور جھٹکے سے کھڑکی سے باہر گر گیا۔
زمین پر گرتے ہی اس کے گھٹنے سے چوٹ لگی، مگر وقت نہ تھا کہ وہ ٹھہرتا۔
وہ ننگے پاؤں دوڑنے لگا، جھاڑیوں میں چھپتا، سائے سے سایہ بدلتا، اندھیرے میں گم ہوتا گیا۔
مگر ڈاکو پیچھے تھے۔
“پکڑو اسے! بھاگ نہ جائے!”
“ادھر گیا ہے! پیچھے چلو!”
گولیاں چلیں۔ ایک گولی قریب سے گزر کر زمین میں دھنس گئی۔ سلیم کا دل حلق میں آ گیا۔
وہ ایک چھوٹے سے نالے میں چھپ گیا۔ سانس اتنی زور سے چل رہی تھی کہ لگتا تھا خود سن لے گا۔
تقریباً دس منٹ وہ خاموشی سے بیٹھا رہا۔ آوازیں دور ہو گئیں۔
لیکن جب وہ نالے سے باہر نکلنے لگا تو ایک نقاب پوش اچانک سامنے آ گیا۔
“ادھر کہاں جا رہے ہو؟ لگا کہ بچ گیا؟”
سلیم نے پلٹنے کی کوشش کی، مگر اب دیر ہو چکی تھی۔ ڈاکو نے اُسے گردن سے پکڑ کر زور سے زمین پر پٹخ دیا۔
“یہی کہا تھا، بھاگنے کی کوشش نہ کرنا۔”
قسط یہاں ختم ہوتی ہے جب سلیم زخمی حالت میں دوبارہ اسی کمرے میں ڈال دیا جاتا ہے — اور اب کی بار اس کے ساتھ صرف رسی نہیں، زنجیر بھی بندھی ہوتی ہے۔