قسط نمبر 5: چھپے اڈے پر

سلیم کو دوبارہ اسی ویران کمرے میں لایا گیا، مگر اس بار حالات مختلف تھے۔
اب وہ زخمی بھی ہو چکا تھا.

فرش پر گرد و غبار، خون کے دھبے، اور دیواروں پر گرافٹی سے بھرا ماحول۔ یہ جگہ کسی خالی گھر سے زیادہ ایک پرانے جرائم پیشہ گروہ کا اڈہ لگتی تھی۔

نقاب پوش غصے میں تھے۔

“ہم نے تجھ پر رحم کیا تھا، اور تو بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے؟”
“اب یہ زندہ نہیں بچے گا۔ ایک بار اگلا کام نمٹ جائے، پھر اس کی آخری سانس بھی نکال دیں گے۔”

سلیم کی کمر پر چوٹ لگی تھی، اور بازو سوج چکے تھے۔ وہ درد سے کراہ رہا تھا، مگر دل میں ہمت باقی تھی۔

اسی اثناء میں ایک اور آدمی کمرے میں داخل ہوا۔ وہ بھی نقاب میں تھا، مگر لگتا تھا کہ باقیوں سے عمر میں بڑا ہے۔ آواز بھاری تھی، لہجہ حکم دینے والا۔

“کیا حال ہے اس لڑکے کا؟”

“جناب، بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پکڑ لیا۔ اب زنجیر سے باندھ دیا ہے۔”

ڈاکو نے سلیم کے قریب آ کر جھک کر کہا:

“تم ہمیں جانتے نہیں، مگر ہم تمہیں جان گئے ہیں۔ تم وہ نہیں جو ڈر کے لیٹ جاؤ، تم وہ ہو جو ہمارے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔”

سلیم نے جواب نہ دیا، صرف خاموشی سے آنکھیں چرائیں۔

ڈاکو نے اس کے قریب آ کر آہستہ سے کہا:

“بس کچھ گھنٹوں کی بات ہے۔ ہم سب کچھ سمیٹ کر نکل جائیں گے۔ تب تم بھی… آزاد ہو جاؤ گے۔ ہمیشہ کے لیے…”

اس جملے میں جو سرد مہری تھی، وہ سلیم کو اندر تک کاٹ گئی۔

ڈاکو سب باہر نکل گئے۔ دروازے پر تالا لگا دیا گیا۔

کمرے میں سناٹا تھا۔ مگر سلیم کے دل میں ایک نیا سوال پیدا ہوا:
“یہ اگلا کام کیا ہے؟ کہاں جانا چاہتے ہیں؟ کیا یہ صرف ڈاکو ہیں، یا کچھ اور بھی؟”

اسے یاد آیا، ٹیپ ریکارڈر اب بھی اس کے کپڑوں کے اندر چھپا ہے۔ شکر ہے وہ اب تک نہیں دیکھا گیا۔ وہ ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے دل ہی دل میں بولا:

“اگر زندہ بچ گیا تو ان سب کو قانون کے حوالے کر دوں گا۔ ان شاء اللہ!”

وہ سوچ رہا تھا کہ کیسے زنجیر کھولی جائے، کہ اچانک اسے کمرے کی دیوار میں ایک سوراخ سا دکھائی دیا۔ جیسے کسی چوہے نے کرید کر نکالا ہو۔
سلیم نے آہستہ سے ہاتھ بڑھایا، اور اس سوراخ میں ایک چھوٹا سا زنگ آلود چاقو محسوس ہوا۔

یہ شاید کسی پچھلے قیدی کا چھوڑا ہوا بچاؤ کا ذریعہ تھا، یا قدرت کا کرشمہ۔

سلیم نے دعا مانگی:

“یا رب، تُو ہی میرا ناصر ہے۔ تُو چاہے تو زنجیر بھی ٹوٹ جائے۔”

اس نے چاقو اٹھایا۔ زخمی ہاتھوں کے ساتھ، وہ آہستہ آہستہ زنجیر کے تالے کی سمت بڑھنے لگا۔

کمرے کے باہر سے ایک نئی گاڑی کے انجن کی آواز آتی ہے، اور نقاب پوش ایک دوسرے کو کہتے ہیں:

“چلو، وقت آ گیا ہے۔ اگلا مرحلہ شروع کرو!”