قسط نمبر 6: ذہانت کا استعمال

سلیم کے ہاتھ اب بھی زخمی تھے، مگر اس کا ذہن مکمل طور پر بیدار ہو چکا تھا۔ چاقو کی موجودگی نے اسے ایک نئی امید دی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے زنجیر کے لوہے پر خراش ڈالنے لگا، لیکن جانتا تھا کہ زنجیر کاٹنا آسان نہیں۔
اس کا اصل ہدف زنجیر کو نہیں، ڈاکوؤں کو کاٹنا تھا — قانون کی تلوار سے۔

اسی اثنا میں کمرے کے باہر سے نقاب پوشوں کی آوازیں سنائی دیں۔
وہ ایک دوسرے سے اگلے منصوبے پر گفتگو کر رہے تھے:

“پولیس ابھی تک پچھلے بینک کی تفتیش میں الجھی ہوئی ہے۔ اگلا ٹارگٹ وہ پرانی کپڑے والی فیکٹری ہے، جہاں رات کو محافظ بھی نہیں ہوتا۔”

“ہاں، وہاں کیش بھی ہوتا ہے اور کسی کو شک بھی نہیں۔”

سلیم نے فوراً چاقو سے قمیض کی اندرونی تہ میں چھپا ٹیپ ریکارڈر نکالا۔ آہستگی سے بٹن دبایا۔
آوازیں صاف آ رہی تھیں۔

یہ سب ریکارڈ ہو رہا تھا۔

تقریباً تین منٹ کی گفتگو میں اُن کا اگلا پلان، مقام، وقت، اور حتیٰ کہ ایک کا نام بھی ذکر ہو گیا — “کاشف بھائی کہہ رہے تھے، سب خاموشی سے نمٹ جائے گا۔”

سلیم کے لیے یہ سونا تھا۔

اس نے ریکارڈر بند کر کے واپس قمیض میں چھپا لیا اور چاقو کو اب زنجیر کے قفل پر آزمانا شروع کیا۔

تالہ زنگ آلود تھا۔ چند خراشوں کے بعد ہی چاقو کی نوک اندر جانے لگی۔ سلیم کو امید بندھ گئی۔
ہر دو منٹ بعد وہ رک کر دروازے کی طرف کان لگاتا۔ کوئی قریب نہ ہوتا تو دوبارہ کام میں لگ جاتا۔

اسی دوران باہر سے ایک بار پھر آواز آئی:

“ہم تین گھنٹے میں واپس آئیں گے۔ لڑکا یہیں رہے گا، ہلا بھی تو گولی مار دینا۔”

پھر گاڑی کی آواز آئی۔ نقاب پوش جا چکے تھے۔
شاید سلیم کے پاس اب صرف چند گھنٹے تھے — فرار، ثبوت کے ساتھ، پولیس کے پاس پہنچنے کا آخری موقع۔

وہ بولا:

“یا اللہ، تُو نے مجھے سننے کی صلاحیت دی، ریکارڈنگ کا ذریعہ دیا، اب بس مجھے نکلنے کا راستہ بھی دے دے۔”

بالآخر تالے میں ایک زور دار جھٹکا مارنے پر زنجیر کھل گئی۔

سلیم نے سانس کھینچی، خود کو آزاد محسوس کیا۔
اب قدم بہت نرمی سے رکھنے تھے۔ باہر والا گارڈ ابھی تک کمرے کے سامنے موجود تھا — نیند میں یا ہوشیار، یہ دیکھنا باقی تھا۔

سلیم نے چھوٹے سوراخ سے باہر جھانکا۔ گارڈ نیم دراز کرسی پر بیٹھا تھا، بندوق گود میں، سر ایک طرف جھکا ہوا۔

یہی موقع تھا۔

سلیم نے اپنے کپڑوں کو اچھی طرح درست کیا، ریکارڈر قمیض کے اندر چھپایا، چاقو ہاتھ میں لیا، اور دروازے کے پیچھے سے قدموں کی چاپ سنتے ہوئے مکمل خاموشی سے کمرے سے نکلنے کی ترکیب سوچنے لگا۔

لیکن قسط یہاں پر ختم ہوتی ہے — جب سلیم دروازے کی چٹخنی پر ہاتھ رکھتا ہے، اور اچانک ایک قدم باہر آتا ہے…
کیا وہ کوئی ساتھی ہے یا دشمن؟