دروازے کے پیچھے سلیم کی سانسیں رُک چکی تھیں۔ جیسے ہی اس نے چٹخنی کو آہستہ سے دبایا، اچانک باہر قدموں کی چاپ آئی۔ وہ جھٹ سے پیچھے ہٹ گیا، دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
کمرے کے دروازے کے نیچے سے ہلکی سی روشنی کی لکیر ظاہر ہوئی۔ کوئی قریب ہی تھا۔
سلیم نے آہستہ سے چاقو مٹھی میں مضبوطی سے تھاما۔ اگر اب بھی کچھ کرنے سے رہ گیا تو شاید زندگی بھر موقع نہ ملتا۔
دروازے پر صرف ایک شخص تھا۔ وہ ہلکی آواز میں فون پر بات کر رہا تھا:
“ہاں، سب باہر نکل گئے ہیں۔ میں یہاں ہی ہوں۔”
سلیم نے دروازے کے سوراخ سے جھانکا — نوجوان نقاب پوش تھا، شاید گروہ کا نیا رکن، جس کی ذمہ داری صرف پہرہ دینا تھی۔
سلیم نے دل میں سوچا:
“یہی وقت ہے۔ اگر میں اسے خاموش کرا دوں یا کسی طریقے سے بے ہوش کر دوں تو نکل سکتا ہوں۔”
چاقو کی نوک پر سلیم کا دل نہیں مانا — وہ کسی کا خون نہیں چاہتا تھا۔
لہٰذا اس نے ایک اور تدبیر سوچی۔
کمرے کے کونے میں رکھا خالی کولڈ ڈرنک کا بوتل اس کے ہاتھ لگا۔ اس نے آہستہ سے بوتل کھڑکی سے باہر پھینکی۔ بوتل دور جا کر زمین سے ٹکرائی اور آواز پیدا ہوئی۔
پہرے دار چونک گیا:
“کون ہے؟”
اس نے بندوق اٹھائی اور باہر کی طرف چل دیا۔
سلیم نے لمحہ ضائع کیے بغیر دروازہ کھولا، باہر نکلا، اور دوسری سمت لپکا۔
یہ عمارت جیسے کسی پرانے کارخانے کا حصہ لگتی تھی۔ باہر ایک آدھ بلب جل رہا تھا۔ سلیم نے دیوار سے لگ کر چھپتے چھپاتے مین گیٹ کی سمت بڑھنا شروع کیا۔
اتنے میں وہی پہرے دار واپس آیا۔
“اوئے! اندر دروازہ کھلا کیسے؟”
اس کی نظر سلیم پر پڑ گئی۔
“رُک جا!”
گولی چلنے کی آواز گونجی۔ گولی سلیم کے قریب زمین پر لگی۔
سلیم دوڑنے لگا، زخم خوردہ ٹانگ کے باوجود پوری طاقت سے۔
پچھلی سمت ایک کچی دیوار تھی۔ سلیم نے جھپٹ کر اس پر چڑھنے کی کوشش کی۔ بندوق کی آوازیں پیچھے سے بڑھ رہی تھیں:
“روک لو اسے! بچ نہ جائے!”
سلیم دیوار پھلانگنے میں کامیاب ہو گیا۔
دوسری طرف جھاڑیاں اور کھیت تھے۔
سانس پھولی ہوئی، پسینہ اور خون ساتھ بہہ رہے تھے، لیکن قدم نہیں رُک رہے تھے۔
وہ دیہاتی علاقے کی طرف بھاگا۔ دور روشنی کی ایک لائٹ دکھائی دی — شاید کوئی کھیت کا کمرہ یا کسان کی جھونپڑی۔
قریب پہنچا تو ایک بوڑھا شخص چراغ کی روشنی میں کچھ کام کر رہا تھا۔
سلیم نے ہانپتے ہوئے کہا:
“بابا… مدد کریں… میں… میں یرغمالی تھا… ان کے چنگل سے بھاگا ہوں…”
بابا حیران ہوا، لیکن چہرے پر شفقت آئی۔
“آؤ بیٹا، اندر آؤ۔ پہلے پانی پیو، پھر بتاؤ کیا ہوا۔”
سلیم نے جلدی جلدی اپنا تعارف کروایا، ریکارڈر دکھایا، اور سارا ماجرا مختصراً سنا دیا۔
بوڑھا کسان خاموشی سے سنتا رہا، پھر آہستہ سے اٹھا اور فون نکالا:
“پولیس چوکی یہی قریب ہے، میں جانتا ہوں انسپکٹر بشیر کو۔ ابھی کال کرتا ہوں۔”
سلیم نے ٹھنڈی سانس لی، اور پہلی بار ایک لفظ بولا:
“شکر ہے، میں بچ گیا…”
قسط یہاں ختم ہوتی ہے جب کسان پولیس کو فون ملاتا ہے، اور دوسری طرف آواز آتی ہے:
“ہاں بشیر بول رہا ہوں، کیا ہوا؟”