انسپکٹر بشیر کی آواز فون پر گونجی:
“تم کہہ رہے ہو، لڑکا ڈاکوؤں کے قبضے سے بھاگ کر آیا ہے؟ کہاں ہے وہ ابھی؟”
بوڑھے کسان نے تفصیل سے بتایا، اور سلیم نے خود بھی فون پر آ کر اپنا نام، والد کا نام، اور مکمل واقعہ مختصراً بیان کیا۔
انسپکٹر کی آواز میں فوری سنجیدگی آ گئی:
“بیٹا، تم نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ اب تمہاری حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ میں فوراً نفری لے کر آ رہا ہوں۔”
پولیس پہنچنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگنا تھا۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
ابھی سلیم نے پانی کا گلاس ہاتھ میں لیا ہی تھا کہ باہر سے گاڑی کے بریک چرچرانے کی آواز آئی۔
“یہ تو پولیس نہیں ہو سکتی… یہ تو وہی لوگ ہیں!”
کسان نے جلدی سے سلیم کو اندر کے ایک چھوٹے کمرے میں چھپایا اور دروازے کی چٹخنی بند کر دی۔
دروازہ زور زور سے بجنے لگا:
“اوئے، دروازہ کھول! ہم نے دیکھا ہے، وہ لڑکا یہیں آیا ہے!”
بوڑھے نے دروازے کے اندر سے آواز دی:
“میں اکیلا ہوں، کون لڑکا؟ کس کی بات کر رہے ہو؟”
مگر نقاب پوش زیادہ دیر دھوکہ نہ کھا سکے۔ ایک نے کھڑکی کے شیشے سے جھانک کر سلیم کو کمرے میں دیکھ لیا:
“وہ سامنے ہے! جلدی اندر گھسو!”
سلیم کو اب صرف ایک ہی راستہ نظر آیا:
چھوٹے پچھلے دروازے سے نکل کر جنگل کی طرف بھاگنا۔
اس نے کمرے کا پچھلا دروازہ کھولا، اور پوری رفتار سے کھیتوں کی طرف دوڑ لگا دی۔
پاؤں زخمی، جسم تھکا ہوا، مگر حوصلہ تازہ تھا۔
ڈاکو پیچھے لپکے:
“وہ پھر بھاگ گیا! اس بار زندہ نہ بچے!”
جنگل قریب تھا۔ لمبی لمبی گھاس، کانٹوں بھرے درخت، اور سنسان رات کا اندھیرا — ہر طرف موت کے سائے لگ رہے تھے۔
سلیم بار بار پیچھے دیکھتا — ان کے ہاتھ میں بندوقیں تھیں، اور قدم بہت قریب آ رہے تھے۔
اسی وقت اچانک ایک گولی چلنے کی آواز آئی — سلیم کا بازو چھو کر گولی نکل گئی۔
وہ لڑکھڑایا، مگر گرا نہیں۔
“نہیں، ابھی نہیں!”
اچانک دور سے پولیس کی گاڑیوں کے سائرن کی آواز آنے لگی۔
“وووووو…! وووووو…!”
ڈاکو رُک گئے۔
“پولیس آ گئی ہے! چلو، واپس بھاگو!”
سلیم ایک جھاڑی کے پیچھے گر کر بے ہوش ہونے والا تھا کہ انسپکٹر بشیر کی آواز سنائی دی:
“ادھر دیکھو! لڑکا یہی ہے!”
پولیس نے سلیم کو بازو سے تھاما۔ وہ زخمی، مگر ہوش میں تھا۔
انسپکٹر نے دو سپاہیوں کو اشارہ کیا:
“فوراً اسے گاڑی میں ڈالو، باقی جنگل چھان مارو۔ ڈاکو زیادہ دور نہیں جا سکتے!”
قسط یہاں ختم ہوتی ہے — جب سلیم ایمبولینس میں لیٹے ہوئے آسمان کی طرف دیکھتا ہے، اور دل میں کہتا ہے:
“یا اللہ، تُو نے ایک بار پھر بچا لیا…”