زمین کی گہرائیوں میں – قسط نمبر ایک: خوفناک اندھیرا

سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔

ہمارے گرد صرف اندھیرا تھا — ایسا اندھیرا جس میں روشنی کا تصور بھی عجیب لگتا تھا۔ نمی سے بھیگی دیواروں سے ٹپکتا پانی، گونجتی ہوئی آوازیں، اور ہر تھوڑی دیر بعد دور کسی انجانی مخلوق کی چیخ… یہ سب کچھ دماغ کو مفلوج کر دینے کے لیے کافی تھا۔

میرا ہاتھ پتھر پر تھا۔ ٹھنڈا، گیلا، اور عجیب سا لرزتا ہوا۔ شاید یہ میرا وہم تھا — یا شاید وہ دیوار واقعی ہل رہی تھی۔

پروفیسر لیڈن بروک چند قدم آگے تھے۔ ان کے ہاتھ میں مشعل تھی، مگر اس کی روشنی میں صرف ان کا چہرہ دکھائی دیتا تھا — باقی سب کچھ تاریکی میں گم تھا۔

“رک جاؤ!” میں نے پھٹی ہوئی آواز میں کہا۔ “کچھ… کچھ حرکت کر رہا ہے وہاں آگے!”

پروفیسر نے پلٹ کر مجھے دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں خوف نہیں تھا — صرف حیرت تھی۔ جیسے وہ اس لمحے کا برسوں سے انتظار کر رہے ہوں۔

“ہم قریب ہیں… میں محسوس کر رہا ہوں، ایکسل۔ زمین کے مرکز کے راز ہمیں بلا رہے ہیں۔”

میں نے پیچھے دیکھا۔ ہمارا ساتھی ہنس، خاموشی سے دیوار کے ساتھ لگا بیٹھا تھا۔ اُس کا چہرہ پسینے سے تر اور آنکھیں خالی تھیں۔ وہ پچھلے گھنٹے سے کوئی لفظ نہیں بولا تھا، بس ایک ہی سمت گھورتا جا رہا تھا۔

پھر اچانک، زمین کانپی۔

نہایت آہستگی سے، جیسے کوئی دیو قامت مخلوق نیچے جاگ رہی ہو۔ دیوار کی دراڑوں سے ایک گہری آواز آئی — کچھ ایسی جو انسانی زبان میں بیان نہیں کی جا سکتی۔

ہم تینوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے۔ اس اندھیرے میں، ہر چیز دشمن لگتی تھی — حتیٰ کہ ہماری اپنی پرچھائیاں بھی۔


اور یہ سب کیسے شروع ہوا؟

دو مہینے پہلے، ہم ہیمبرگ کی ایک پرانی لائبریری میں بیٹھے تھے۔ وہی لائبریری جہاں ایک بوسیدہ کتاب کے اندر چھپا وہ پیغام ملا، جس نے ہمیں اس سفر پر مجبور کیا — ایک ایسا سفر جس میں ہر قدم زمین کو اور وقت کو پیچھے چھوڑتا گیا… اور جس کا اختتام شاید یہاں ہو — اس اندھیرے، اس خاموشی اور اس خوف کے بیچ۔