ہم تینوں گڑھے کے کنارے خاموش کھڑے تھے۔
نیچے اندھیرا تھا۔ ایسا اندھیرا جس میں مشعل بھی ہار مان لے۔ ہم نے ایک چٹان اٹھا کر نیچے پھینکی — دیر تک کچھ سنائی نہیں دیا۔
پروفیسر نے گڑھے کے گرد چٹان کا معائنہ کیا۔ کچھ جگہوں پر کٹاؤ بہت نرم تھا، جیسے زمین نے کسی وقت یہاں سے بھاپ یا گیس خارج کی ہو۔
“یہ ایک عمودی وینٹ لگتا ہے،” انہوں نے کہا۔ “آتش فشانی دہانہ، جو شاید اب سو چکا ہے۔ نیچے جانا خطرناک ہے — اگر گیس بھری ہو یا دیواریں کمزور ہوں تو ہم پھنس سکتے ہیں۔”
میں نے سوال کیا، “تو پھر ہم کیا کریں؟ یہی آخری راستہ ہے؟”
پروفیسر نے آہستہ سے مسکرا کر کہا، “زمین کے راز اتنے سادہ نہیں ہوتے، ایک دروازہ بند ہو تو دوسرا کھلتا ہے۔ ہمیں دھیان سے دیکھنا ہوگا۔”
ہم نے غار کے اردگرد کی دیواریں کھنگالنی شروع کیں۔
پھر ایک مقام پر — پیچھے، ایک دراڑ ملی۔ ہنس نے مشعل قریب کی، تو وہاں ایک سوراخ نظر آیا جو دیوار کے اندر ایک تنگ مگر قابلِ عبور راستے کی طرف جاتا تھا۔
پتھر پر انگلی سے بنایا ہوا ایک تیر بھی تھا — مٹی میں کھینچا گیا، شاید گوتیے نے۔
ہم نے فوراً فیصلہ کیا — ہم یہ راستہ لیں گے۔ یہ گڑھا نہیں، یہ اشارہ ہے کہ شاید کسی اور نے بھی گہرائی کو قابلِ فہم طریقے سے ناپا ہو۔
نئی سرنگ تنگ تھی، مگر زمین خشک اور سخت تھی — اس کا مطلب تھا کہ خطرہ کم ہے۔ ہم تقریباً ۲۰ منٹ رینگتے رہے — پھر اچانک، سرنگ کھل گئی۔
ہم ایک چھوٹے مگر بلند کمرے میں داخل ہوئے — دیواروں پر نمک کی پرت، چھت سے ٹپکتا پانی، اور سامنے… ایک خیمہ۔
خاکی رنگ کا، پرانا، مگر موجود۔
ہم چونک گئے۔
“یہ… یہ کسی کا پڑاؤ ہے،” میں نے آہستہ سے کہا۔
پروفیسر نے جھک کر خیمے کی زِپ اٹھائی۔ اندر ایک پرانی بیگ، کچھ خشک خوراک، اور ایک فائل ملی۔
فائل پر لکھا تھا:
“Expedition Gauthier – Final Notes”
پروفیسر کی آنکھوں میں وہی چمک آ گئی جو ان کی آنکھیں تب دکھاتی تھیں جب وہ کوئی نیا سائنسی مقالہ کھولتے تھے۔
“ہم گوتیے کے قریب آ رہے ہیں،” وہ بولے۔
میں نے خیمے کے پیچھے ایک اور پتھر پر کندہ الفاظ پڑھے:
“اگر تم یہاں تک پہنچ چکے ہو، تو اب تم جانتے ہو — زمین صرف باہر سے نظر آنے والی چیز نہیں… اندر بھی کچھ ہے، جو دیکھنے کے لائق ہے۔”
ہم خاموش بیٹھے، ہر ایک اپنے خیال میں گم۔