قسط نمبر 6: گمشدہ کے قدموں پر

ہم نے وہ برتن بہت غور سے دیکھا۔ اس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی، مگر کندہ کیا گیا نام اور سال اب بھی واضح تھا:

“Jacques Gauthier – 1825”

پروفیسر نے کہا، “یہ فرانسیسی نام ہے۔ غالباً کوئی سیّاح یا محقق… ہم سے بھی پہلے۔”

میں نے آہستہ سے کہا، “پھر وہ واپس کیوں نہ آیا؟”

پروفیسر خاموش ہو گئے۔ کچھ لمحے وہ برتن کو گھورتے رہے، پھر بولے، “ہمیں اس کے نشانات دیکھنے ہوں گے۔ شاید وہ ہمارے لیے راستہ چھوڑ گیا ہو… یا شاید تنبیہ۔”

ہم نے اردگرد کے پتھروں کو کھنگالنا شروع کیا۔ جلد ہی ہمیں ایک چٹان کے کنارے ایک چھوٹا سا نشان ملا — ایک تیر کا نشان، جو سرنگ کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔

ہنس نے بے چینی سے کہا، “یہ نادانی ہو گی۔ کسی بھٹکے ہوئے کا پیچھا کرنا ہمیں بھی گم کر سکتا ہے۔”

پروفیسر بولے، “یا ہمیں نجات دلا سکتا ہے۔”

بحث کے بغیر، ہم نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔


سرنگ تنگ ہوتی گئی، اور ساتھ ہی اس میں نمی اور بدبو بھی بڑھتی گئی۔ کہیں کہیں فرش پر سفیدی جم چکی تھی — شاید معدنیات، یا پھر کسی گیس کی باقیات۔

ایک مقام پر ہمیں ایک اور نشان ملا — چٹان پر کوئلے سے لکھا گیا تھا:

“3rd day – no sound from surface”

“تیسرا دن؟” میں نے آہستہ سے کہا۔ “اس کا مطلب ہے وہ بندہ یہاں کئی دن رہا…”

پروفیسر نے سر ہلایا۔ “اور اس نے یہ جان کر لکھا… کہ شاید کوئی پڑھنے والا نہ ہو۔”

ہم نے اس مقام پر کچھ دیر آرام کیا۔ تھکن ہمارے پٹھوں میں اتر چکی تھی، مگر نیند آنکھوں سے غائب تھی۔

ایک اور سرنگ ہمیں نظر آئی، جو نیچے کی طرف جاتی تھی — اور اس کے کنارے ایک جلا ہوا کوئلہ پڑا تھا، جیسے کسی نے وہاں بیٹھ کر نوٹ لکھا ہو۔

“4th day – strange echoes, possibly not natural.”

پروفیسر نے کوئلہ اٹھا کر سونگھا۔ “یہ بہت پرانا نہیں لگتا… اگر ہوا خشک رہی ہو، تو شاید سو سال پرانا بھی نہیں ہوگا۔”

میں نے زمین پر نظر ڈالی۔ وہاں کچھ عجیب تھا — مٹی میں دو جوتوں کے نشان۔

تازہ نہیں، مگر محفوظ۔

ہم سے پہلے کوئی اور بھی یہاں تک آیا تھا — شاید گوتیے ہی… یا کوئی اور۔


پروفیسر نے گہری سانس لی اور کہا:

“اب سوال یہ نہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں… سوال یہ ہے کہ کیا ہم اکیلے جا رہے ہیں؟”

میں نے سرنگ کی طرف دیکھا۔ اندھیرا ہماری طرف پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔