قسط نمبر 7: پانچویں دن کی خاموشی

جیسے جیسے ہم گہرائی میں اترتے گئے، ماحول بدلنے لگا — اب دیواریں نمی سے نہیں، بلکہ نمک کی سفیدی سے چمکنے لگی تھیں۔ کہیں کہیں پتھروں پر سفید کرسٹل بنے ہوئے تھے، اور فضا میں ہلکی سی خنکی آ گئی تھی۔

“یہ نمکی غار ہے،” پروفیسر نے کہا۔ “یہاں پانی کے بہاؤ نے چٹانوں کو کھوکھلا کیا ہے… مگر یہ جگہ خستہ ہے، ہمیں احتیاط سے گزرنا ہوگا۔”

ہم آہستہ آہستہ ایک کھلے چیمبر میں پہنچے، جہاں ہوا بند تھی۔ روشنی نے جیسے ہی دائرہ کھینچا، ہم سب رک گئے۔

سامنے ایک چٹان پر کوئلے سے لکھا تھا:

“5th day – my torch is dying.”
“If anyone finds this, you must go back.”

یہ جملے سیدھے دل پر لگے۔

پروفیسر کچھ دیر ساکت کھڑے رہے۔ پھر نرمی سے بولے، “یہ گوتیے کے الفاظ ہیں۔”

میں نے جھک کر دیکھا — اس جگہ ایک کپڑا بھی پڑا تھا۔ نم ہو چکا تھا، شاید کسی پرانے بیگ کا بچا ہوا حصہ۔

ہنس نے کہا، “اس نے خبردار کیا ہے۔ کیا ہمیں واپس نہیں چلے جانا چاہیے؟”

پروفیسر کی آنکھوں میں الجھن تھی — جذبہ اور عقل آپس میں ٹکرا رہے تھے۔

“واپسی کا راستہ یاد ہے؟” پروفیسر نے مجھ سے پوچھا۔

میں کچھ لمحے خاموش رہا۔ پھر ہلکے لہجے میں کہا، “ہم واپس جا سکتے ہیں… اگر سرنگیں وہی رہیں جو ہم نے دیکھی تھیں۔”

ہم جانتے تھے — زمین نیچے جتنی خاموش لگتی ہے، اندر سے اتنی ہی بے چین ہے۔


ہم نے کچھ دیر وہاں بیٹھ کر خوراک کھائی۔ خاموشی میں صرف ہماری سانسیں تھیں۔ میں نے بے ساختہ کہا، “اگر ہم واپس نہ جا سکے تو؟”

پروفیسر نے دھیرے سے جواب دیا، “تو ہم… گوتیے کی طرح ان چٹانوں کا حصہ بن جائیں گے۔”


پھر ہم آگے بڑھے — وہاں سے صرف ایک ہی سرنگ نکلتی تھی، جو بالکل سیدھی نیچے جاتی تھی۔ زمین قدرے نرم تھی، شاید پرانی لاوا ٹیوب۔
مگر اس بار، وہاں کچھ اور بھی تھا۔

زمین پر چھوٹے چھوٹے دھبے — خشک ہو چکے، مگر سرخی مائل۔

“یہ… خون ہو سکتا ہے؟” ہنس نے دبی آواز میں کہا۔

پروفیسر نے کچھ نہ کہا، مگر میں نے محسوس کیا — اب ان کے قدموں میں پہلی بار ہچکچاہٹ تھی۔

ہم تینوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔

آگے صرف اندھیرا تھا — مگر اب وہ صرف فزیکل اندھیرا نہیں، بلکہ ایک سوال تھا:

“ہم جس کی تلاش میں ہیں، کیا وہ پہلے ہی سب کچھ جانتا تھا… اور خبردار کر چکا تھا؟”