پانی کی بوند اب ہماری مشعل پر ٹپکنے لگی تھی۔ آگ بھجنے کو تھی۔
ہم ایک تنگ سرنگ میں کھڑے تھے — اتنی تنگ کہ پروفیسر کا کندھا پتھر سے رگڑ کھا چکا تھا، اور ہنس کی کمر بار بار چھت سے ٹکرا رہی تھی۔ میری سانس بے ترتیب ہونے لگی۔ اس سرنگ میں آکسیجن کا ذائقہ بدلا ہوا محسوس ہوتا تھا — جیسے یہ فضا کسی اور زمانے کی ہو۔
پھر وہ ہوا کچھ ایسا… جس نے ہماری ریڑھ کی ہڈیوں میں برف اتار دی۔
پیچھے سے سرنگ کا منہ بند ہو چکا تھا۔
نہ کوئی آواز آئی، نہ کوئی جھٹکا۔ صرف وہ جگہ جہاں سے ہم گزرے تھے — اب پتھروں سے اَٹی ہوئی تھی، جیسے کبھی وہاں راستہ تھا ہی نہیں۔
“یہ… کیسے ہو سکتا ہے؟” میں نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
پروفیسر نے مشعل کو اونچا کیا، اور اس روشنی میں ہم نے ایک چیز دیکھی — سرنگ کی دیوار پر نوچنے کے نشان۔ جیسے کسی نے ناخنوں سے، یا پنجوں سے دیوار کو کھرچنے کی کوشش کی ہو۔
ہنس نے لرزتی آواز میں کہا، “یہ نشان نئے ہیں…”
میں نے دیوار کے قریب جا کر چھوا — پتھر نم تھا، اور خراشیں بالکل تازہ تھیں۔ کوئی… یا کچھ… یہاں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔
پروفیسر نے گہری سانس لی۔ “یہ صرف فطری چیزیں نہیں، ایکسل۔ یہ راستے جیسے… سوچتے ہیں۔”
“سوچتے ہیں؟” میں حیران ہوا۔
“ہاں… کبھی کھلتے ہیں، کبھی بند ہوتے ہیں۔ ہمیں یہاں نیچے کوئی قوت کنٹرول کر رہی ہے — اور وہ ہمیں کسی طرف لے جانا چاہتی ہے۔”
میں نے مشعل کو تھاما اور سرنگ کے گہرے حصے میں قدم رکھا۔ میری ایڑی سے پانی چھپ چھپ کی آواز کرتا رہا، اور فضا میں نمی کے ساتھ ایک عجیب سی بُو شامل ہوتی جا رہی تھی — کچھ گلنے سڑنے جیسی… یا شاید کسی مٹی ہوئی چیز کی۔
پھر ہم نے وہ سنا — ایک باریک سی، مسلسل چلنے والی سرسراہٹ… جیسے کوئی بہت بڑی چیز رینگ رہی ہو، مگر ہم سے بہت نیچے۔
(فلیش بیک)
دو ہفتے پہلے، ہم ریکیاوِک پہنچے تھے۔ آئس لینڈ کا شہر، بظاہر پُرامن، مگر ہمیں معلوم تھا کہ ہم وہاں صرف چند دن کے مہمان ہیں — اس کے بعد ہماری راہ نیچے، بہت نیچے جا رہی تھی۔
ہم نے اپنے ساتھ کم از کم سامان رکھا تھا: خشک خوراک، پانی، مشعلیں، اور ایک نقشہ — وہی نقشہ جس میں ایک مردہ آتش فشاں کے دہانے کو ہمارے سفر کی چابی کہا گیا تھا۔
پروفیسر مطمئن تھے۔ وہ صرف زمین کے رازوں تک نہیں، اپنے علم کے ثبوت تک پہنچنا چاہتے تھے۔
مجھے، صرف واپسی کا راستہ عزیز تھا۔
سرنگ میں آواز پھر آئی — اب کچھ قریب۔
ہم تینوں ایک دوسرے کے ساتھ لگ گئے۔ مشعل لرزنے لگی۔ سانس روک کر ہم نے سنا۔
اور پھر… ایک سایہ حرکت کرتا دکھائی دیا۔